Monday, December 9, 2019

خدا کے وجود پر کلامی دلیل


خدا کےوجود پرکلامی دلیل

                                                                    خدا کے وجود کیلئے ایک دلیل استعمال کی جاتی ہے جسے تکوینیاتی دلیل (Cosmological Argument) کہا جاتاہے۔ یہ دلیل ارسطو اورافلاطون کے زمانے سے چلی آرہی ہے جسے بعد میں مسیحی متکلم تھامس ایکوائنس(Thomas Aquinas) نے منظم طور پر پیش کیا۔ سادہ صورت میں اس دلیل کی منطقی ساخت(Syllogism) یوں ہے:

1)   ہر وجود کی کوئی نہ کوئی   علت (Cause)ہوتی ہے
2)   چونکہ یہ کائنات بھی ایک وجود ہے
3)  اس لیے اس کی بھی ایک علت ہے

                                                                                                      اس پر قدیم وجدید ملحدین ایک ہی سانس میں کئی اعتراضات کرڈالتے ہیں مثلاً:

اگر یہ علت خدا ہے تو پھر خدا کی بھی کوئی علت ہونی چاہیئے کہ نہیں؟؟؟
اس سے یہ کب ثابت ہوتاہے کہ یہ علتِ اول وہی خد اہے جس کی صفات کاتعارف بائبل اورقرآن میں ہے؟؟
اس سے یہ کب ثابت ہوتاہے کہ وہ یہ خالق ایک ہی خدا ہے یا خداؤں کاپورا ایک بورڈ آف گورنرز ہے جو مل  جل کر کائنات کو چلارہا ہے؟؟؟ وغیرہ وغیرہ۔

                                                 البتہ اس تکوینیاتی دلیل کا ایک ورژن ایسا ہے جسے رد کرنا ملحدین کیلئے ایسا آسان  نہیں ہوتا۔اس ورژن کوکلام تکوینیاتی دلیل(Kalam Cosmological Argument) کہاجاتاہے۔ اس میں ’کلام‘ کالفظ اس لیے ہے کہ اس دلیل کو مسلمانوں کے علمِ کلام کی کتب سے لیا گیا ہے۔ اسے مغرب میں متعارف کرانے کا سہرا مشہورمسیحی متکلم ولیم لین کریگ (William Lane Craig) کے سر ہے جس نے اسے ملحدین کے ساتھ مباحثوں میں استعمال کیا۔ولیم کریگ نے اگرچہ اسے امام غزالی سے منسوب کیا ہے مگر درست یہ ہے کہ یہ کلامی دلیل مشہور مسلم فلسفی اورریاضی دان  یعقوب بن اسحاق الکندی کی ایجاد تھی۔ کلامی دلیل کی ترمیم شدہ منطقی ساخت اس طرح ہے:

1)  ہر وجود میں آنے والی شے کی کوئی علت ہوتی ہے
2)   یہ کائنا ت بھی چونکہ وجود میں آئی ہے
3)  اس لیے اس کی بھی ایک علت ہے

                                                                                           اس ورژن پر وہ اعتراضات پیدا نہیں ہوتے جو اس کی ابتدائی صورتوں پر وارد کیے جاتے ہیں۔ پھر بھی جدید ملحدین(New Atheists) اس پر کچھ نہ کچھ سوالات اٹھاتے ہیں۔مثال کے طورپر  میٹ ڈلاہنٹی(Matt Dillahunty) ایک امریکی ملحد ایکٹیوسٹ ہے جو  The Atheist Experience “ کے عنوان سے کیبل پر لائیو ٹیلی وژن شو کرتاہے جس میں لائیوکالز کے ذریعے سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔اس کے پروگرام میں جب ایک کالرنے خدا کے وجود کیلئے یہی کلامی دلیل دیناچاہی تو اس نے یہ کہہ کر اسے مسترد کردیا کہ اس میں توکہیں خدا کا تذکرہ ہی نہیں ۔جب اس دلیل کے مقدمات(Premises) اورنتیجے (Conclusion) میں خداکاذکر ہی نہیں تو پھریہ خداکےوجود پر دلیل کیسے بن سکتی ہے؟ اگر یہ ثابت کردیا جائے کہ میرے کوئی جسمانی والدین ہیں تواس سے یہ کب ثابت ہوجاتاہے کہ فلاں شخص مثلاً مارک میرا باپ ہے:



یہاں میٹ ڈلاہنٹی اوراس جیسے دوسرے ملحدین کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ ایک منطقی دلیل کی ذمہ داری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نہ صرف خداکے وجود کو ثابت کرکے دے بلکہ اس کے نام اوراوصاف کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے۔حالانکہ کسی منطقی دلیل کاکام خداکے وجود کیلئے  محض ایک امکان(Probability) کو ثابت کرنا ہوتاہے، ایسی دلیل خداکی شخصیت  کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی اورنہ اس کیلئے کسی نام کو اپنے مقدمات اورنتیجے میں شامل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ کوئی بھی منطقی دلیل ایک خاص سیاق وسباق اورموقع ومحل میں کام کرتی ہے۔وہ کسی کوکسی کاباپ نہیں ثابت کرسکتی ، مگر یہ ثابت کرسکتی ہےکہ ہر انسان کاایک باپ ہوتاہے۔ فرض کریں اسی میٹ ڈلاہنٹی سے کوئی کہتاہے کہ :”مارک تمھارا باپ ہے۔“
اس پر اگرمیٹ صرف یوں انکارکردے کہ:”نہیں، مارک میراباپ نہیں ہے۔“ تو یہاں کسی دلیل کاکوئی موقع نہیں بنتا۔ لیکن اگروہ یوں تردید کرے کہ:
”نہیں، مارک میرا باپ نہیں ، کیونکہ میراکوئی جسمانی باپ نہیں ہوسکتا۔“ تو اب یہاں کلامی دلیل کاکردارشروع ہوجائے گا جو اسے یوں قائل کرسکتی ہے کہ:
1)  ہرانسان کاایک جسمانی باپ ہوتاہے
2) چونکہ تم بھی انسان ہو
3) اس لیے تمھارابھی ایک جسمانی باپ ہے
اب اس باپ کانام مارک ہے یا چارلس ڈارون، یہ بتانا اس دلیل کاکام نہیں۔دلیل نے باپ ہونے کے امکان کو ثابت کرکے اپنا کام ختم کردیا۔

                                                                                                                      اسی طرح اس کائنات کے حوالے سے اگر کسی ملحد سے کہا جائے کہ:”کائنات کو خدانے پیداکیا ہے۔“ اوراس کے جواب میں وہ ملحد صرف یوں انکارکردے کہ:”نہیں، اس کائنات کوکسی خدانے پیدا نہیں کیا۔“  تو یہاں بھی اسے سمجھانےکیلئے کسی دلیل کا موقع نہیں بنتا ،کیونکہ اس نے اپنے انکارکا کوئی contextنہیں بتایا۔تاہم اگروہ یوں تردید کرے کہ:
”نہیں، یہ کائنات کسی خداکی بنائی ہوئی نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ خودبخود وجود میں آئی ہے۔“ تو پھر یہاں بھی کلامی دلیل کے اطلاق کاموقع بن جاتاہے جواسے یوں قائل کرسکتی ہے کہ چونکہ یہ کائنات ایک خاص لمحے میں وجود میں آئی ہے، اس لیے کوئی اس کو ارادے سے وجود میں لانے والا ممکن ہے۔لیکن وہ وجود میں لانے والا کون ہے؟ اس کانام اور صفات کیا ہیں؟ ان باتوں کا جواب دینا ایک منطقی دلیل کی ذمہ داری نہیں۔

                                                                                                ملحدین ایک نکتہ اوربھی نہیں سمجھتے کہ خدا کوماننے والے کسی منطقی دلیل کوپڑھ یا سمجھ کر نہیں مانتے، بلکہ ان کے خداپر عقیدے کی وجہ کسی پیغمبر کی شہادت یاکسی آسمانی صحیفے کابیان ہوتاہے۔ منطقی دلیل تومحض عقل کے اطمینان کیلئے ہوتی ہے۔ اگر دنیا کے تمام دلائل ایک ایک کرکے باطل ثابت کردیے جائیں تو بھی اس سے لوگوں کے  خداپر عقیدے  پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

**********************




No comments:

Post a Comment