Sunday, May 16, 2021

ایک ملحد کی ڈائری

 


طنز و مزاح 

ایک ملحد کی ڈائری

 

یکم جنوری

کسی خدا کا شکر نہیں کہ آج مجھے الحاد اختیار کیے پورا ایک سال ہوگیا ہے۔ مگر ابھی میرا عقیدہ ایسا پختہ نہیں ہوا اور ابھی بھی زبان سے کبھی کبھی خداکرے، الحمدلللّہ، ماشاء اللہ او ر لاحول و لاقوۃ جیسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔

 ابھی کل ہی ایک دوست نے کہا کہ: ”اگلےسال شاید کورونا وائرس کا اپ ڈیٹڈ ورژن لانچ ہوجائے۔“ ۔۔۔ تو میں  نےبے اختیار جھُرجھُری لیتے ہوئے کہا : ”اللہ نہ کرے!“

 چند دن پہلے جو بےدھیانی میں موٹرسائیکل ایک اسپیڈ بریکر سے ٹکرادی اور الٹی قلابازیاں کھاتا ہوا فضا میں بلند ہوگیا تو اسی اثناء میں نیچے ایک قوی ہیکل شخص نے نے مجھے کسی فٹ بال کی طرح کیچ کرلیا جس پر میں پھر کہہ بیٹھا: ”جزاک اللہ!“

اسی طرح ایک دن ایک ملحد دوست نے بڑے پُرجوش انداز میں خبر سنائی کہ اس کے ملحدانہ یوٹیوب چینل پر دس ہزار سبسکرائبر ہوگئے ہیں، تو ایک بارپھر میری زبان پھسل گئی کہ :”ماشاءاللہ!“

اس نئے سال کے آغاز پر عہد کرتا ہوں کہ اپنی زبان پر قابو رکھوں گا اور کسی حال میں بھی  ایسے الفاظ ادا نہ کروں گا جو میرے ملحدانہ نظریات کے خلاف ہیں، انشاءاللہ۔

15جنوری

رات دیر تک رچرڈ ڈاکنز کی کتاب  کامطالعہ کرتا رہا اور پھر اس علم القین  کے ساتھ سوگیا  کہ  ارتقاء واقعی میں ہوا ہے۔

آج  صبح اٹھ کر آئینے میں جو اپنے چہرے کے خدوخال کو غور سے دیکھا تو انسانوں اور بندروں کے مشترکہ جدِ امجد The Great Ape کی واضح جھلک دکھائی دی۔ اس سے عین الیقین ہوا کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقاء درست ہے۔

پھر آج ہی کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی کو جو ایک تھرڈ پارٹی کے ذریعے ڈینٹنگ کا پیغام بھیجا تو وہ فوراً میرے پاس آئی او ر بھڑک کر کہنے لگی: ”اپنی شکل دیکھی ہے بندروں جیسی!“۔۔۔ اب تو حق الیقین ہوگیا کہ ڈارونزم ہی صراطِ مستقیم ہے۔

20جنوری

آج صبح فجر کی اذان کے ساتھ ہی آنکھ یوں کھُل گئی جیسے نماز کے لیے جانا ہو۔ یہ دماغ بھی عجیب اٹھکیلیاں کرتا ہے۔ اسے reboot  کرکے اس کی ڈیفالٹ الارم سیٹنگز تبدیل کرنا ہوں گی،  ورنہ یہ یونہی مرغِ سحری بنا رہے گا۔

10فروری

آج پہلوان ہوٹل کے سامنے ایک مومن سے خداکے وجود پر بحث ہوگئی۔ وہ سڑک کے دوسری جانب ایک پلازے کی بلندوبالا بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ”جب اس بلڈنگ کا کوئی بنانے والا ہے تو پھر اس کائنات کو بھی کسی نے بنا یا ہوگا۔“ اس پر میں نے فوراً جواب دیا کہ:”اس پلازے کےمالک نےاس کی تعمیر کے لیے  بینک سے قرض لیا تھا۔ پھر اس نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے قرضہ معاف کرالیا۔ لیکن اب دوسری سیاسی جماعت کی حکومت آگئی ہے تونیب نے اس کی فائل کھول  لی  ہے اوراسے نوٹس بھی بھیج دیا ہے۔ عنقریب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہوگا۔“۔۔۔ یوں میں نے اس مومن کی توپ دلیل کو ایک چُٹکی میں پٹاخہ کرکے رکھ دیا!

15فروری

لوگ جب بات بے بات خداکا ذکر کرتےہیں تو بہت بوریت ہوتی ہے۔ آج ایک محفل میں بڑی مزیدار گپ شپ چل رہی تھی کہ ایک صاحب نے اچانک کسی بات پر زور سے لاحول ولاقوۃ کہہ دیا۔ اس پر میرا موڈ خراب ہوگیا اور میں فوراً وہاں سے اٹھ کر آگیا۔مگر گھر آکر سوچا کہ مجھے یوں اسی وقت نہیں اٹھنا چاہیئے تھا۔ بھلا ان لوگوں نے مجھے کیا سمجھا ہوگا!

5مارچ

آج کل سُوتے میں بہت ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ عجیب وغریب قسم  کی شکلوں کے aliens   دکھائی دیتے ہیں جو آپس میں کسی اجنبی زبان میں سرگوشیاں کرتے ہیں اور پھر میری طرف اشارے کرتے ہوئےزیرِ لب مسکراتے ہیں۔مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا ہے۔ آج جو میں نےگُوگل ٹرانسلیٹ استعمال کیا تو معلوم ہوا کہ دراصل  وہ میری پیدائش سے وابستہ کچھ رازوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ جس سے بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔ان کم بختوں کو نہ جانے کیسے ان باتوں کا علم ہوگیا۔

کسی سائیکی ایٹرسٹ سے مشورہ کرنے کا خیال آتا ہے مگر پھر یہ سوچ کر ارادہ ترک کردیتا ہوں کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو مخالفین کے ہاتھوں میں خوامخواہ ایک پراپیگنڈہ آجائے گا۔ مومنین اسے اپنی فتح سمجھیں گے اور میری بیماری کو سوشل میڈیا پر اچھالیں گے۔

20 مارچ

بعض مومن دوستوں کا کہنا ہےکہ ملحدین مرنےسے بہت ڈرتے ہیں۔ مگر آج میں نے  جی ٹی روڈ پر پورے پانچ منٹ وَن ویلنگ کرکے ثابت کردیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ البتہ یہ وَن ویلنگ اس وقت فورویلنگ میں بدل گئی جب مجھے اسٹریچر پر ہاسپٹل لے جایا گیا!

یکم اپریل

آج کسی نے الحاد کے رد پر ایک کتاب پڑھنے کو دی۔ جب اسے کھول کر دیکھا تو واقعی بڑے زبردست دلائل دیے گئے تھے۔ ایک بار تو میرے ہاتھوں کے طوطے  اُڑ گئے اور سر پر بیٹھ کر بیٹیں کرنے لگے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان دلائل کی تردید کیسےہو۔ پھر جواچانک  میری نظر کیلنڈر پر پڑی تو بےاختیار اطمینان کا سانس لیا۔ آج تو یکم اپریل تھی۔ یار لوگوں نے مذاق میں فول بنا یا تھا اورمیں اس کتاب کو خوامخواہ ہی اتنا سنجیدہ لے بیٹھا!

15اپریل

کبھی کبھی الحاد پر یقین متزلزل سا ہونے لگتاہے۔ وسوسے آتے ہیں کہ کیا پتہ خدا موجود ہو اور کہیں وہ  قیامت کے دن مُرغا ہی نہ بنادے! ۔۔۔یقیناً یہ وسوسے شیطان دل میں ڈالتاہے۔انسان مومن ہو یا ملحد، یہ کمبخت دونوں صورتوں میں پیچھا نہیں چھوڑتا۔حالانکہ اسے کم ازکم اپنوں کا  لحاظ کرنا چاہیئے!

2مئی

کچھ دن پہلے ایک مشہور سائنسدان کی کاسمولوجی پر ایک کتاب خریدی تھی۔ پڑھنے کی کوشش کی مگر کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں آئی، لیکن لوگوں پر رعب جھاڑنے کے لیے اسے کالج کی کتابوں کے اوپر رکھ کر گھومتا رہتا ہوں۔

10مئی

آج میں اور ایک مومن دوست رات کو ایک ولیمے کی تقریب سے واپس آرہے تھے۔ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ چونکہ اسٹیشن ماسٹر کی بیگم نے اپنے بھانجے کے عقیقےپر پہنچنا تھا، اس لیے آخری ٹرین پندرہ منٹ پہلے ہی چلادی گئی۔ہم نے بس کے ذریعے جانے کے ارادے سے بس اسٹاپ کا رخ کیا تو وہاں تمام بس ڈرائیوروں نے ایک خاتون کنڈکٹر کو طلاق ہوجانے پر ہڑتال کررکھی تھی۔ چاروناچار ہم پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑے۔ میراسادہ لوح مومن دوست کہنے لگا: ”اس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت ہوگی۔“ 

میں نے اس بیوقوف کو سمجھایا کہ: ”ہم اربوں نوری سالوں پر پھیلی ہوئی کائنات کے اندر  ایک چھوٹی سی کہکشاں کے ایک ایسے حقیر  سیارے پر آباد ہیں جس کی حیثیت ایک بڑے صحرا میں ریت کے ذرے سے زیادہ نہیں۔ایسی وسیع وعریض کائنات میں  ہم سے ٹرین چھُوٹ جانے یا بس نہ ملنے کے واقعے کی کوئی ایسی اہمیت  ہی نہیں کہ ہم اس میں کسی خدا کی مصلحت تلاش کریں۔ یہ تو محض ایک ناقابلِ ذکر سا اتفاق ہے۔“

مگر جب پندرہ کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد میں رات کے دوبجے گھر پہنچاتو ذہن بُری طرح جھُنجلایاہواتھا کہ آخر ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا۔ غصے میں اپنے موبائل فون کو دیوار پر کھینچ مارااور اسٹڈی ٹیبل کو بھی ایک زوردار ٹھوکر رسید کی۔ موڈ بہت خراب ہوچکا تھا، اس لیے دانتوں کوبرش کیے بغیر ہی بستر پر لیٹ گیا۔اگر اتنی بڑی کائنات کے ایک گوشے میں واقع چھوٹی سی زمین پر بسنے والے اربوں انسانوں میں سے ایک انسان نے ایک دن دانت صاف نہیں کیے تو اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے!

20مئی

کل سے کان میں درد اور ہلکابخار تھا۔ ایک مشہور ایک این ٹی اسپیشلسٹ کو دکھایا تو اس نے کہا کہ انفیکشن ہے اور کچھ اینٹی بایوٹکس لکھ دیں۔میری ایک خالہ بہت مذہبی واقع ہوئی ہیں۔ وہ میری تیمارداری کے لیے آئیں تو نہ جانے کون کون سی سُورتیں پڑھ کر مجھ پر دَم کرنے لگیں۔ میں نے کہا: ”رہنے دیں خالہ جان، آپ کی ان پھُونکوں سےکچھ نہیں ہوگا، اصل کام تو اینٹی بایوٹکس نے ہی کرنا ہے۔“ اس پروہ بہت ناراض ہوئیں کہ کیسا کفر بک رہاہوں اور بڑبڑاتے ہوئے چلی گئیں۔میں دل میں بہت ہنسا کہ ان مذہبی لوگوں کو میڈیکل سائنس کی ترقی  کا شعور ہی نہیں اور خوامخواہ دعاؤں میں اپنی انرجی ضائع کرتے رہتے ہیں۔

لیکن جب رات کو اینٹی بایوٹکس کی دوسری خوراک لی تو اس سے درد کو تو کچھ آرام آیا، مگر ساتھ ہی  مُوسلادھار موشن لگ گئے۔ ساری رات ٹوائلٹ میں لگی ٹائلیں گننے میں گزری۔ میڈیکل سائنس نے ترقی تو خوب  کی ہے مگر اس کی دواؤں کےسائیڈایفیکٹس اتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ  ملحدین کو بھی دعاؤں کی ضرورت پڑ جاتی ہے!

25مئی

موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے کانوں میں ہیڈفون لگائے ایک ملحد پروفیسر صاحب کا انٹرویو سن  رہا تھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ ”کائنات اور انسانی زندگی کا کوئی مقصد نہیں، یہ تو محض ایک حادثہ تھا کہ ہم اس سیارے پر موجود ہیں۔ ہماری زندگیوں کا مقصد بس وہی ہوتا ہے جو ہم خود اپنے لیے طے کرلیتے ہیں۔۔۔“ یہ سن کر میں ان پروفیسر صاحب کی ملحدانہ بصیرت سے بہت متاثر ہوا۔ واقعی انھوں بہت سائنٹیفک بات کی تھی ۔ قریب ہی  لڑکیوں کےایک  کالج میں شام کی کلاس ختم ہونے کا وقت ہوچکا تھا۔چنانچہ میں نے موٹر سائیکل اس طرف موڑ دی۔ اس وقت بھُونڈی سے بہتر زندگی کا کوئی دوسرا مقصد ذہن میں نہیں آیا!

8جون

آج شدید گرمی تھی اور سارا دن تپتی ہوئی لوئیں چلتی رہیں۔ ایسے میں ایک باریش حضرت کو تبصرہ کرتے سنا کہ : ” ہم انسان تو اس دنیا کی گرمی برداشت نہیں کرپاتے، پھر دوزخ کی گرمی کیسے جھیلیں گے!“۔۔۔ یہ سُن  کر ایک لمحے کو میں بھی پریشان ہوگیا ، مگر پھر یہ سوچ کردل کو تسلی ہوئی کہ ہم ملحدین میں تھرمواسٹیٹ فزکس کے کافی ماہرین موجود ہیں، اس لیے امید ہے کہ دوزخ میں ائیرکنڈیشننگ کا کچھ نہ کچھ انتظام ہو ہی جائے گا۔

22 جون

مذہبی لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ملحدین چونکہ خدا  اور آخرت کو نہیں مانتے، اس لیے ہم ہر طرح کے کام کرنے کے لیے آزاد ہیں اور ہم پرکوئی روک ٹوک نہیں ہوتی  ۔۔۔ مگر یہ غلط ہے۔ ہم ملحدین کی زندگیوں میں بھی کچھ اخلاقی پابندیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں بھی کچھ کرنے سے پہلے چاروں طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں بھی اُس وقت پورن وڈیوز کے حوالے سے ضبطِ نفس سے کام لینا پڑتا ہے جب انٹرنیٹ پیکج ختم ہوچکا ہو۔ راہ چلتے ہوئے ہم بھی نگاہوں کی پاکیزگی کا خیال رکھتے ہیں جب کسی لڑکی کے ساتھ اس کا باڈی بلڈر بھائی ہو ۔ رمضان کے مہینے میں ہمیں بھی پبلک مقامات پر روزہ رکھنا پڑتا ہے اور تنہائی ملنے پر ہی افطاری کرتے ہیں ۔  جب شدید بارش کی وجہ سے کالج کا ٹیسٹ کینسل ہوجاتا ہے تو بے اعتقادی کے باوجود خدا کاشکر بھی ادا کرنا پڑتاہے۔بعض اوقات  کسی کنجوس دوست سے ادھار مانگتے وقت خدا کاواسطہ بھی دینا پڑجاتاہے۔کبھی کبھی ہم اپنی شناخت ظاہرنہیں بھی کرسکتے اور دوستوں کے گھیرے میں مجبوراً مسجد بھی چلے جاتے ہیں۔۔۔ آہ!

لوگ آساں سمجھتے ہیں ملحد ہونا!

 (زیرِ طبع کتاب سے اقتباس)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Tuesday, June 23, 2020

بلاگ کے مضامین کتابی شکل میں


                                                                                                                        بلاگ کے تمام مضامین کتابی شکل میں ”مذہب، سائنس اور الحاد“ کے عنوان سے شائع ہوگئے ہیں۔ اس  لنک پر یہ کتاب فری پڑھی اور شیئرکی جاسکتی ہے: