Thursday, January 30, 2020

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دو بڑی غلطیاں


سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دو بڑی غلطیاں

                                                                                                                                                               سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی میں مسلم ذہن کوسب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت تھے۔ان کی شہرۂ آفاق تفسیر تفہیم القرآن آج بھی تعلیم یافتہ طبقے میں مقبول ہے۔ ان کی تحریروں نے ہرمزاج اور ہر طبقے کے انسان کو متاثر کیا۔حتیٰ کہ مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا وحیدالدین خاں، ڈاکٹر اسرار احمد اور جاوید احمدغامدی بھی وہ چنگاریاں تھیں جو سیدمودودی کی ہی آتشِ فکر سے پھوٹیں اور بعد میں الگ ہوکر شعلوں میں بدل گئیں۔ان کی قائم کردہ دینی سیاسی جماعت 90ء کی دہائی تک پاکستانی سیاست میں ایک اہم قوت کی حثیت رکھتی تھی۔

                                                                                                                                     مولانا مودودی کی فکر کا مرکزی خیال اسلام کو بحثیت دین ایک سماجی اور سیاسی قوت کے طور پر دنیا میں غالب کرنا تھا، مگر بوجوہ ان کی قیادت میں برپا ہونے والی اسلامی تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ اس میں جہاں پاکستانی معاشرے کی مذہبی ساخت اور پاکستانی سیاست کی مخصوص پیچیدگی کاعمل دخل تھا، وہیں پر آغاز میں ہی مولانا سے دو ایسی غلطیاں ہوئیں جو آخر تک ان کے راستے کاکانٹابنی رہیں:

1) مولانا مودودی کی پہلی بڑی غلطی1940ء کی دہائی میں تحریکِ پاکستان کی مخالفت تھی۔اگرچہ یہ مخالفت تنقید کی حدتک ہی محدود رہی، مگر اس کے منفی اثرات نے بعد میں پاکستان کے اندر ان کی اسلامی انقلاب کی جدوجہد کو بہت گہنا دیا۔ مولانا نے مسلم لیگ کی قیادت اور نصب العین دونوں پر تنقید کی، حالانکہ وہ قرآن کی روشنی میں مطالبۂ پاکستان کو حضرت موسیٰ کے بنی اسرائیل کو فرعونِ مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے مشابہ خیال کرسکتے تھے۔ مسلمانوں کیلئے علیٰحدہ وطن کی تجویز میں کوئی دینی استدلال مانع نہ تھا۔ مولانا اس معاملے میں برصغیر کے مسلمانوں کے رجحانات کو بھی نہ سمجھ سکے جن کے دلوں کوپاکستان کا تصور بہت بھا گیا تھا۔ وہ نہ صرف تحریکِ پاکستان سے عملاً لاتعلق رہے بلکہ اپنی تحریروں میں بھی مسلم لیگ کی طرزِ سیاست پر شدید تنقید کرتے رہے، اگرچہ اس کے ساتھ انھوں نے کانگریسی علماء کے خلاف بھی لکھا۔
                                                                                                       جب پاکستان بن گیا تو مولانا مودودی اپنے ساتھیوں سمیت لاہور آگئے۔ اب انھوں نے پاکستانی مسلمانوں کویوں مخاطب کرنا شروع کیا کہ پاکستانیو! تم نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ تمھیں ایک آزاد وطن دے گا تو تم اس میں اسلامی نظام نافذ کروگے، اللہ نے تو تمھیں نصرت دے دی، اب تمھاری ذمہ داری ہے کہ اسے اسلامی ریاست بناکر اپناعہد پورا کرو۔۔۔ یہ بات درست ہونے کے باوجود مولانا کے سابقہ مؤقف کے حوالے سے ایک یوٹرن تھی جسے پاکستانی عوام کی اکثریت نے قبول نہیں کیا اور آخری دم تک مولانا اور ان کے رفقاء قیامِ پاکستان کی مخالفت کے حوالے سے صفائیاں ہی پیش کرتے رہے مگر لوگوں کے دل صاف نہ ہوسکے۔

2) مولانا مودودی بہت عبقری ذہانت کے حامل تھے اوراپنی منفرد علمی رسائی کے ذریعے دینی مسائل کو خوبصورتی سے سلجھانے کا ملکہ رکھتے تھے۔مگر اس کے باوجود انھوں نے فنونِ لطیفہ(مصوری، موسیقی، آرٹ وغیرہ) پر غیرضروری طور پر بہت سخت مؤقف اختیار کیا۔ حالانکہ یہاں بھی قرآن و احادیث میں ایک معتدل رائے ظاہر کرنے کی گنجائش موجود تھی۔
                                                                                                                     مثال کے طور پر تصویر کے معاملے میں روایات باہم مختلف تھیں؛ ایک طرح کی روایات کے مطابق اللہ کی کسی بھی تخلیق کی نقل کرنا ممنوع تھا، دوسری طرح کی روایات میں صرف جانداراشیاء کی شبیہ بنانا منع کیا گیا تھا اور تیسری قسم کی روایات کے وہ بھی موجود تھیں جو صرف پرستش  کی نیت سے بنائی گئی تصاویر کی مذمت کرتی تھیں مثلاً معبدوں میں رکھے گئے مجسمے اور روحانی بزرگوں کی تصاویر وغیرہ۔ ان سب روایات پر مجموعی طورپر  غور کرکے مولانا تصویر کے حوالے سے گنجائش پیدا کرسکتے تھے۔ مگر ان کی طبیعت میں ایک سخت مؤقف اپنا کر ساری دنیا سے لڑ جانے کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ان کے پیروکار جدید دنیا کے ذرائع ابلاغ سے کٹ کر رہ گئے۔تصویر کی ابلاغی قوت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا تصور کیجیے کہ بچوں کی نصابی کتابوں میں سے اگر تصاویر نکال دی جائیں تو ان میں کتنی تدریسی افادیت باقی رہ جائے گی ؟ اب زمانے کے تقاضوں سے مجبور ہوکر مولانا کے پیروکار تصاویر کا استعمال کرنے لگ گئے ہیں مگر ظاہرہے کہ یہ ایک طرح کی قلبی منافقت ہے کہ آپ ایک چیز کو اصولاً حرام سمجھتے ہیں مگر عملاً اس سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں۔

***********************

Thursday, January 23, 2020

نظریۂ ارتقاء اور مسلم علماء


نظریۂ ارتقاء اور مسلم علماء

                                                                                         ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے حوالے سے مذہبی علماء نے پانچ مؤقف اختیار کیے ہیں:

1) یہ سارا نظریہ ایک جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔یہ دراصل مادہ پرست ملحدین کی مذہب کے خلاف ایک  سازش ہے۔

2) اس کے ابھی تک کوئی قطعی شواہد نہیں ملے ہیں اور بطور نظریہ اس میں کئی خامیاں اور جھول ہیں، اسی لیے یہ ابھی تک محض ایک نظریہ ہی ہے، کوئی ثابت شدہ قانون نہیں بن سکا ۔

3) دیگر جاندار (نباتات اور حیوانات) تو ارتقاء کے نتیجے ہی میں پیدا ہوئے ہیں ، تاہم انسان  کی نوع خداکی براہِ راست تخلیق کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے انسان میں نطق، شعور اور اخلاق جیسے اوصاف  موجود ہیں جو دیگر جانداروں میں نہیں ہیں۔

4)تمام ہی جانداروں میں ارتقاء ہوا ہے اور جب اس کے نتیجے میں آدمی نما حیوان وجود میں آگئے تو خدا نےان میں ایک بہترین جوڑا(آدم وحوا) منتخب کرکے اس کی جسمانی اورذہنی طورپر تراش خراش   اور اصلاح کی۔۔ ۔ اور پھر ان میں اپنی روح پھونک کر انھیں انسانیت کے مرتبے پر فائز کردیا۔

5) اسلام کے پیروکاروں کو اس حوالے سےقرآن کے دوٹوک بیانات پر ہی یقین رکھنا چاہیئے اور اس بات کا انتظار کرنا چاہیئے جب جدید سائنسی انکشافات کے نتیجے میں ماہرینِ حیاتیات نظریۂ ارتقا کو مسترد کرکے نظریۂ تخلیق کی توثیق پر مجبور ہوجائیں گے۔۔ جس طرح فزکس میں بھی سائنسدان  کائنات کے ازلی وابدی ہونے کے تصور (جوقرآن کے خلاف تھا)کو ترک کرکے بگ بینگ کے نظریے کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے( جو قرآن کے بیانات کے مطابق ہے)۔

                                                                                                                          میرے خیال میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مؤمن کیلئے سب سے دیانت دارانہ اور ایمانی مؤقف آخری الذکر ہی ہے۔یعنی فی الحال ایک وحی کے پیروکار کوخاموشی سے ماہرینِ حیاتیات کی باتیں سنتے ہوئے قرآن کے نظریۂ تخلیق پر اعتقاد رکھنا چاہیئے، اس یقین کے ساتھ کہ ایک دن صورتحال قرآن کے حق میں تبدیل ہو جائے گی:

”      عنقریب ہم ان کواپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اوران کے اپنے نفس میں بھی۔۔یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔“(سورۃ حم السجدۃ۔53)

************************

Thursday, January 16, 2020

الحاد اور بوریت


الحاد اور بوریت

کوئی خدا موجود نہیں!

مذہب ایک جھوٹ ہے!

موت کے بعد کوئی زندگی نہیں۔۔۔موت تو بس نیند کی طرح ہے۔۔ہمیشہ کی نیند!

انسانی زندگی کاکوئی مقصد نہیں۔۔۔سوائے اس کے کہ انسان اپنی جبلتوں اورخواہشوں کی سمت میں جیتا چلاجائے!

                                                                           مگر اب کیا کیا جائے؟۔۔۔ اس طویل زندگی کو کیسے گزارا جائے؟۔۔خدا اورمذہب کے بعدتوزندگی میں بڑی بوریت پیداہوگئی ہے!

                                                            لذیذ کھانے۔۔ شراب۔۔ جنس۔۔دوستوں کی محفلیں۔۔ کام کاج کی مصروفیات۔۔ یہ سب کچھ وقت کیلئے مشغولیت دے دیتے ہیں مگر پھر انسان ان سے بھی اکتاجاتاہے۔۔جسم تھک جاتاہے۔۔ذہن بیزار ہوجاتا ہے۔۔ زندگی کے ان ہنگاموں کے دوران بھی تحت الشعور میں ایک بے مقصدیت اور بےمعنویت کا احساس موجود رہتاہے۔۔ تو پھر کیا کیا جائے؟

                                                                                      خود کو سائنسی تحقیق کیلئے وقف کردیا جائے؟۔۔ آرٹ تخلیق کیا جائے؟۔۔ انسانی تاریخ اور آثارِ قدیمہ پر ریسرچ کی جائے ؟۔۔ دنیا کی سیاحت کی جائے؟۔۔ مگر یہ سب تو مشکل اور سنجیدہ کام ہیں!

پھر؟؟؟

                                                                               مذہب پر تنقید کرنے اور اس کا تمسخر اڑانے میں بہت لطف آتاہے۔۔ اور اس میں کوئی محنت بھی نہیں کرنا پڑتی ہے۔۔استادوں نے اعتراضات کی ایک طویل فہرست مرتب کرکے دے دی ہے۔۔بس انھیں دوہرانا ہی تو ہے!

                                                                                                   چلو پھر مذہب کی خبر لیتے ہیں۔۔ جو لوگ ابھی تک خدا پر یقین رکھے ہوئے ہیں، انھیں نجات کا سبق پڑھاتے ہیں۔۔ جو لوگ ابھی تک مذہبی تعلیمات کی پابندی اختیار کیے ہوئے ہیں، انھیں آزادی کی راہ دکھاتے ہیں۔۔ جو عورتیں ابھی تک روایتی اقدار سے جڑی ہوئی ہیں، انھیں بغاوت کا چلن سکھاتے ہیں۔۔ مذہب کے خاتمے کی ایک مہم چلاتے ہیں۔۔ خدا کے عقیدے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔۔ یوں ایک مصروفیت میسر آجائے گی۔۔ اور جو دل میں کبھی کبھی  اپنے الحاد کے حوالے جو شکوک پیداہوتے رہتے ہیں، یہ بھی مذہب دشمنی  کے نیچے دب جائیں گے۔۔ بوریت کا سدباب بھی ہوجائے گا اور ذاتی طورپر ایک کیرئیر اورشہرت کی راہ بھی نکل آئے گی!

لیکن اگر ہماری کوششوں سے مذہب واقعی ختم ہوگیا تو؟؟؟

اگر سارے انسان ملحد بن گئے  تو پھر تو یہ مشن اوریہ مشغلہ بھی ختم ہوجائے گا!!

پھر وہی بے مقصدیت اور بوریت !!!

********************

Wednesday, January 15, 2020

کیا حوریں یہی عورتیں ہوں گی؟


کیا  حوریں یہی عورتیں ہوں گی؟

                                                                                                                 جاوید احمدغامدی صاحب نے جنت کی حوروں کے حوالے سے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ کوئی نئی اور الگ مخلوق نہیں ، بلکہ دنیاوی عورتوں ہی کی ایک لطیف صورت ہوں گی۔ ان کے مطابق قرآن میں ’حور‘ کا لفظ محض انتہائی حسن کیلئے اسمِ صفت (Adjective) کے طور پر آیا ہے۔


                                                                                                                                                      غامدی صاحب اکثر ایسی منفرد آراء ظاہر کرتے ہیں جوقرآن کی کسی صریح آیت سے ٹکراتی ہیں جس کی پھر انھیں کوئی پُرتکلف تاویل کرنا پڑتی ہے۔مثلاً اسی حور والی توجیہہ کو لیں تو قرآن میں ہی وضاحت ہے کہ:

”       ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنھیں جنتیوں سے پہلے کسی جن یا انسان نے نہ چھوا ہوگا۔“سورۃ رحمٰن۔56

                                                                                                                        یہ آیت صراحت کررہی ہے کہ جنت کی حوریں دنیا کی شادی شدہ عورتیں نہیں ہوں سکتیں۔تاہم غامدی صاحب اب اس کی تاویل کرتے ہیں کہ خدا جنتی عورتوں کو نئے جسموں کے ساتھ حوریں بنائے گا، اس لیے وہ اچھوتی (Untouched) ہی ہوں گی۔لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت میں یہ اشارہ نہیں ہے کہ خدا دنیاوی عورتوں ہی کو حوریں کی شکل دے گا، بلکہ غامدی صاحب اور کچھ دوسرے مفسرین کی اپنی ذہنی اختراع ہے۔

                                                                                                                                 دوسرا سوال یہ ہے کہ  کیا کنواراپن (Virginity) صرف جسمانی شے ہے یا یہ ایک خاص نفسی اور ذہنی کیفیت کو بھی اپنے اندر لیے ہوتاہے؟ اگر ایک طوائف ،جس نے اپنی پوری جوانی اسی قبیح پیشے میں گزاری ہو ، کوآپ کسی جادوئی طریقے سے نیا جسم دے دیں تو اس کے بعدکیا آپ واقعی کہہ سکیں گے کہ اب وہ بالکل اچھوتی ہوگئی ہے جبکہ اس کا مزاج اور نفس وہی ہے؟

                                                                                                             مزید برآں  اس طرزِ استدلال کو پھر صرف حوروں تک ہی کیوں محدود رکھا جائے، پھر کیوں نہ جنت کی دوسری نعمتوں کو بھی اسی کے تحت سمجھاجائے ؟۔۔۔یعنی پھر اسی استدلال سے کہا جاسکتاہے کہ  جنت میں جو پھل ہوں گے،انھیں خداانہی دنیاوی پھلوں کی خصوصی پیوندکاری (جینیٹک انجینئرنگ) سے پیداکرے گا! ۔۔۔وہاں جودودھ ہوگا، وہ اسی دنیا کے دودھ کے کیمیائی فارمولے کی تالیفی صورت ہوگی!۔۔۔جنت میں جو خوشنما پرندے ہو ں گے، وہ بھی انہی زمینی پرندوں کی خدائی کلوننگ ہوں گے!۔۔۔وہاں جو نہریں ہوں گی ، وہ انہی ارضی نہروں (جھیل سیف الملوک، دجلہ، سویز وغیرہ) سے نکالی جائیں گی!۔۔۔۔ یوں یہ طرزِ استدلال عجیب مضحکہ خیز نتائج تک لے جاتاہے۔

                                                                                                      اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں جنت کی جن نعمتوں کاذکر ہوا ہے ، ان میں اوردنیاوی نعمتوں میں صرف نام کی ہی مشابہت ہے،ورنہ وہ ہر اعتبار سے خدا کی ایک خصوصی تخلیق ہوںگی۔جنت کا سیب صرف نام کی حد تک دنیاوی سیب سے مشابہ ہوگا،ورنہ اپنی ساخت،غذائیت اور ذائقے میں وہ ایسا نیا اورمنفرد پھل ہوگا جیسا انسانوں نے کبھی نہ کھایا ہوگا۔

************************