Thursday, January 23, 2020

نظریۂ ارتقاء اور مسلم علماء


نظریۂ ارتقاء اور مسلم علماء

                                                                                         ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے حوالے سے مذہبی علماء نے پانچ مؤقف اختیار کیے ہیں:

1) یہ سارا نظریہ ایک جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔یہ دراصل مادہ پرست ملحدین کی مذہب کے خلاف ایک  سازش ہے۔

2) اس کے ابھی تک کوئی قطعی شواہد نہیں ملے ہیں اور بطور نظریہ اس میں کئی خامیاں اور جھول ہیں، اسی لیے یہ ابھی تک محض ایک نظریہ ہی ہے، کوئی ثابت شدہ قانون نہیں بن سکا ۔

3) دیگر جاندار (نباتات اور حیوانات) تو ارتقاء کے نتیجے ہی میں پیدا ہوئے ہیں ، تاہم انسان  کی نوع خداکی براہِ راست تخلیق کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے انسان میں نطق، شعور اور اخلاق جیسے اوصاف  موجود ہیں جو دیگر جانداروں میں نہیں ہیں۔

4)تمام ہی جانداروں میں ارتقاء ہوا ہے اور جب اس کے نتیجے میں آدمی نما حیوان وجود میں آگئے تو خدا نےان میں ایک بہترین جوڑا(آدم وحوا) منتخب کرکے اس کی جسمانی اورذہنی طورپر تراش خراش   اور اصلاح کی۔۔ ۔ اور پھر ان میں اپنی روح پھونک کر انھیں انسانیت کے مرتبے پر فائز کردیا۔

5) اسلام کے پیروکاروں کو اس حوالے سےقرآن کے دوٹوک بیانات پر ہی یقین رکھنا چاہیئے اور اس بات کا انتظار کرنا چاہیئے جب جدید سائنسی انکشافات کے نتیجے میں ماہرینِ حیاتیات نظریۂ ارتقا کو مسترد کرکے نظریۂ تخلیق کی توثیق پر مجبور ہوجائیں گے۔۔ جس طرح فزکس میں بھی سائنسدان  کائنات کے ازلی وابدی ہونے کے تصور (جوقرآن کے خلاف تھا)کو ترک کرکے بگ بینگ کے نظریے کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے( جو قرآن کے بیانات کے مطابق ہے)۔

                                                                                                                          میرے خیال میں ارتقاء کے حوالے سے ایک مؤمن کیلئے سب سے دیانت دارانہ اور ایمانی مؤقف آخری الذکر ہی ہے۔یعنی فی الحال ایک وحی کے پیروکار کوخاموشی سے ماہرینِ حیاتیات کی باتیں سنتے ہوئے قرآن کے نظریۂ تخلیق پر اعتقاد رکھنا چاہیئے، اس یقین کے ساتھ کہ ایک دن صورتحال قرآن کے حق میں تبدیل ہو جائے گی:

”      عنقریب ہم ان کواپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اوران کے اپنے نفس میں بھی۔۔یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔“(سورۃ حم السجدۃ۔53)

************************

No comments:

Post a Comment