Tuesday, December 17, 2019

رچرڈ ڈاکنز اورایک یہودی ربی کامکالمہ


رچرڈ ڈاکنز اورایک یہودی ربی کامکالمہ

                                                                                                                            مشہورملحد ماہرِ حیاتیات پروفیسر رچرڈ ڈاکنز(Prof. Richard Dawkins) نے زندگی کے مختلف میدانوں سے مذہبی رہنماؤں، روحانیت کے علمبرداروں، نجومیوں، قیافہ شناسوں اوراکلسٹس وغیرہ کے انٹرویوز کاایک سلسلہ یوٹیوب پر شروع کررکھاہے جس میں وہ ان لوگوں سے ان کے عقائد کے حوالے سے تنقیدی سوالات کرکے انھیں سائنس اورعقل کےخلاف ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اس سلسلے میں اس نے ایک یہودی ربی کے گھرجاکر اس انٹرویوریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اس حوالے سے دلچسپی کاحامل ہے کہ یہ سیدھا سادہ سایہودی عالم جس کی گفتگو بھی بے ربط سی ہے، آخر تک ڈاکنز کے ملحدانہ واروں کا ڈٹ کرمقابلہ کرتاہے اورپوری استقامت کے ساتھ اپنے عقائد کادفاع کرتا رہتاہے۔

                                                                                                                             یہ یہودی ربی ان مسلمان اہلِ علم کیلئے ایک مثال ہے جو جدید علوم سے فوراً متاثرہوکر اپنی دینی روایات میں تبدیلی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں، اورڈارون  کے ارتقائی نظریے کے رعب میں آکر اسے قرآن کے اندر گھسیڑنے بیٹھ جاتےہیں۔یہ بوڑھا یہودی انھیں سبق دے رہا ہے کہ جب ایک کتاب کوخداکاکلام مانا ہے تو پھر کسی سائنسی نظریے کے نتائج پر ایمان لاکر خدا کے الفاظ میں ہیرپھیر کرناایمانی حمیت کے خلاف ہے!

                                                                                               اس وڈیو کالنک دیا جارہاہے ، قارئین اصل وڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں اوراس انٹرویو کے کچھ حصے ترجمہ کرکے بھی دیے جارہے ہیں:


رچرڈڈاکنز:--- ”۔۔۔ ایک یہودی بچہ کس عمر میں سکول جاتاہے؟“

 یہودی ربی: ---”عام طورپر ہمارے بچے دوتین سال کی عمر میں کنڈرگارٹن اورپلے گروپ میں جاتےہیں اورپانچ سال کی عمر میں سکول جاتے ہیں۔۔۔“

ڈاکنز:--- ”۔۔ اوریہودی بچے آپ کے سکولوں میں کیا سیکھتے ہیں؟“

ربی: ---”۔۔۔وہ پڑھنا اورلکھنا سیکھتےہیں۔۔۔ یہودی مدرسے دراصل ہزاروں سال پرانی روایت رکھتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے والدین کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیں۔ تاہم بعض سماجی مسائل کی بنا پر کچھ بچے ایسے بھی ہوتےہیں جن کے والدین ہوتے ، تو اس مسئلے کے حل کیلئے تعلیمی ادارے بنائے گئے جہاں سب ہی بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کاموقع ملتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہودیوں میں دوہزار سال پہلے سے ہی یونیورسل ایجوکیشن کاتصور موجود تھا۔۔۔“

ڈاکنز:--- ”ٹھیک۔۔ اوکے۔۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ آپ محض ایک اتفاق سے ایک یہودی گھرانے میں پیداہوئے اورمیں ایک مسیحی گھرانے میں پیداہوا اوراسی طرح کوئی اورمسلمان گھرانے میں پیداہوجاتاہے۔۔۔توبچوں کی حثیت سے ہم اسی سماج کی روایات پر یقین کرنے لگتےہیں جس میں ہم پیدا ہوتے ہیں ، حالانکہ کچھ دوسری مختلف روایات وعقائد کے حامل معاشرے بھی ہوتےہیں۔ کیا ضروری ہے کہ  پیدائش جیسی حادثاتی چیز سچائی کی بھی حامل ہو؟“

ربی:--- ”میرے خیال میں  یہ بات  صرف اتنی نہیں۔۔۔موروثی روایت کی ایک شعوری قبولیت بھی ہوتی ہے۔۔اس کے بعد ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی غیر شعوری طورپر بہت کچھ سیکھتےہیں۔۔اس میں یہ بھی اہم ہے کہ آپ ایک اکثریتی ثقافت میں پیداہوتےہیں یا اقلیتی ثقافت میں ؟۔۔۔ایک اکثریتی ثقافت میں ہرچیز کو محض روایت کی بنیا دپر صحیح مان لیا جاتاہے۔ ایک اقلیتی ثقافت میں چونکہ آپ مختلف ہوتےہیں تو آپ کو سوچنا پڑتاہے کہ آپ کیوں مختلف ہیں؟ آپ جیسے پیداہوئے ہیں، ایسے کیوں ہیں؟۔۔۔“

ڈاکنز: ---” ہاں ، یہ میں سمجھ رہا ہوں۔۔ مگر چونکہ یہ مختلف ثقافتی روایات مختلف باتوں پر یقین رکھتی ہیں، ایسی باتیں  جو بہت اہم ہیں مثلاً کائنات کے حوالے سے  اوراخلاقیات کے حوالے سے۔۔توکیا بہتر نہیں ہوگا کہ ایک بچے کو باشعور ہونے کے بعد ہی ان ساری روایات کاجائزہ لے کر اپنانے کاموقع دیا جائے؟ بجائے اس کے  کہ یہ فرض کرلیا جائے  کہ ان کے بچے کو بھی وہی بننا ہے جو اس کے آباؤاجداد تھے؟“

ربی:--- ”میرے خیال سے یہ مفروٖضہ کہ بچے کو آباؤ اجداد جیسا ہی بننا چاہیئے، زیادہ درست ہے۔مثلاًمغربی ثقافت کو ہی لیں جوکہ ایک غالب ثقافت ہے، اس میں بھی پہلے سے فرض کرلیا جاتاہے کہ یہ ایک نارمل انسانی رہن سہن ہے اورسب لوگ اسی پر عمل کرتےہیں اورجولوگ اس کے خلاف کرتےہیں انھیں ایک عجوبے کی طرح دیکھا جاتاہے۔۔۔اس لیے میرے خیال میں اس ثقافتی غلبے کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک اقلیتی گروہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے لیے ایک لوگ دنیا  بنائے جہاں وہ اپنا اظہار کرسکے ، خود اپنے بارے میں جان سکے اور اس کے بعد جب وہ باہر کی دنیا میں جائے ، جو کہ سب کو جانا پڑتاہے، میں خود اپنے لب ولہجے کے برعکس لندن کاباسی ہوں اور میرے کردار کے بعض پہلوؤں  کے سبب لوگ مجھے کہتے ہیں  کہ تم بالکل انگریز ہو۔۔تو میرے خیال میں ایک اقلیت کیلئے ایسی الگ دنیا کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنا ثقافتی وجود باقی رکھ سکے ۔۔۔۔“

ڈاکنز: ---”مجھے آپ کے خیال سے ہمدردی ہے اورمیں سمجھ سکتاہوں کہ ایک ہزاروں سال پرانی روایت اتنی قیمتی اورنایاب ہوسکتی ہے کہ اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے اوریہ کہ اس کا گم ہوجانا بہت افسوس ناک ہوگا۔ ۔۔۔تاہم کائنات کے حوالے سے کچھ حقائق ہیں جو یا تو درست ہوسکتےہیں یا غلط اورہمیں بچوں کو اس قابل بنا نا چاہیئے کہ وہ ان حقائق کے شواہد کاجائزہ  لے سکیں مثلاًکائنا ت کی عمر کیا ہے؟ زندگی کیسے وجود میں آئی؟ وغیرہ۔۔۔ لیکن انھیں  اس دوراہے پر لاکھڑا کرنا جہاں ایک طرف شواہد پر مبنی سائنس ہو اوردوسری طرف بزرگوں کی روایت ہو۔ میرا مطلب  ہےکہ کیا آپ کچھ ایسا نہیں کرسکتے جس میں آپ اپنی روایات اور تاریخ کا تحفظ کریں بغیر اس کے کہ اپنے بچوں  پرکائنات  کے حوالے سے ایسی باتیں مسلط کریں جنھیں ماڈرن سائنس محض غلط قرار دیتی ہے؟“

ربی : ---”میں کہوں گا کہ ایک یہودی پر باہر سے کچھ مسلط کرنا ممکن ہی نہیں، بلکہ یہ سائنسی طورپر ممکن نہیں ہوگا۔ کئی وجوہات کی بنا پر یہودی اپنی فطرت میں بہت آزاد لوگ ہیں۔۔ میں کہنا چاہوں گا کہ یہودی جین ایسا جین ہے جوبہاؤ کے خلاف تیرنا پسند کرتاہے۔۔۔“

ڈاکنز: ---”(ہنستے ہوئے )۔۔ہاں ، میں بھی یہی سمجھتاہوں ۔۔مگر پھر بھی۔۔۔“

ربی: ---”۔۔۔اور اور جہاں تک مطالعۂ کائنا ت کا تعلق ہے میرے خیال میں ایک یہودی بچہ ارتقا کے سوال پر اس سے کہیں زیادہ وقت سوچتاہے جتنا کہ آپ کاایک اوسط انگریز بچہ۔ کیونکہ اسے یہ مسئلہ  درپیش ہے۔ ہم یہودی مانتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو پیدا کیا چھ دنوں میں۔ہم ارتقا کے بارے میں جانتے ہیں، یہودیوں کاہر بچہ ارتقا کے بارے میں جانتاہے، اس کے بارے میں سوچتا ہے ، پڑھتاہے اورجاننے کی کوشش کرتاہے کہ یہ تضاد آخر ہے کیا ۔۔۔اس لیے میرے خیال  میں یہ  ایک صحتمند اورمثبت صورتحال ہے جو آپ کا ذہن کھولتی ہے اورآپ کو ان امور سے نمٹنے پر مجبور کرتی ہے۔۔۔“

ڈاکنز:---”ٹھیک ہے۔ یہ بہت اچھی باتیں ہیں اورمیری خواہش ہے کہ یہ درست ہوں۔۔لیکن ایسے بچے کتنے ہوتے ہیں جو آپ کے مدارس سے پڑھ کر نکلتےہیں اور پھر ارتقا پر بھی یقین رکھتےہوں؟“

ربی:--- ”(کچھ سکوت کے بعد)۔۔۔میرے خیال میں ہمارے بچوں کی اکثریت ارتقا پر یقین نہیں رکھتی اوراس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ ارتقا کے بارے میں کچھ جانتے نہیں ہوتے۔ وہ نظریۂ ارتقا کو سمجھتے ہیں۔ پھر بھی وہی بات مانتےہیں جس پر ہم  یہودی عمومی طورپر یقین رکھتے ہیں کیونکہ ہم اس حوالے سے کھلے مباحث کراتےہیں، ہم نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ مجھے یاد ہےکہ میں خود دس گیارہ سال کی عمر کاتھا، ارتقا کے حوالے سے سوچتا تھا اورمیں یہ نہیں کہتا کہ میں اس حوالے سے کوئی منفرد تھا۔یہ بالکل نارمل بات ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کسی بلبلے کے اندر نہیں رہتا۔ ہم کوئی کنوئیں کے مینڈک نہیں، ہم اس جدید دنیا کاحصہ ہیں۔ لہٰذا ہم ان باتوں پر بالکل غور کرتے ہیں جن کاآج کی دنیا میں بہت چرچاہے۔۔“

ڈاکنز: ---”میں پھر کہوں گا کہ آپ کی یہ باتیں قابلِ تحسین ہیں لیکن معاف کیجیے گا مجھے نہیں لگتا کہ ان پر کوئی عمل بھی ہوتا ہو۔۔۔یہ چھ دن جن کاآپ نے ذکر کیا،آپ کے خیال میں یہ چھ دن گزرے کتنا عرصہ ہوچکا ہے؟“

ربی :---”ہمارا اعتقاد ہےکہ یہ عرصہ پانچ ہزارسات سو پینسٹھ سال کا ہے۔لیکن ہم یہاں بالکل آغاز کی بات کررہے ہیں۔ ہمارے یقین کے مطابق خدانے کائنات کوبھی ایسی ہی پختہ صورت میں تخلیق کیا تھا جیسا کہ  اس نے انسان۔۔۔مرد اورعورت۔۔۔ کو پختہ عمر میں پیداکیا ۔ حتیٰ کہ ڈارون خداکو مانتاتھا اوروہ یہ بھی مانتاتھا کہ خدا نے ایک بنیادی کائنات بنائی، پھر اسے ارتقا کیلئے موزوں کردیا۔۔ جو ہمارا اعتقاد ہے  ، وہ یہ ہے کہ خدا نے کائنات کو اس حالت میں پیدا کیا جیسا کہ  کہہ  لیں  کہ ایک تھیٹر کا سٹیج ہوتاہے، اس لیے کہ آپ کے ہاں ایک ہیملٹ پیداہو۔۔اس میں ایک قبرستان بھی ہے جس پر آپ سمجھتے ہیں کہ کچھ نسلیں جی کر مر چکی ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ خدا نے اس سٹیج کو ایسے قبرستان سمیت ایک ساتھ پیداکیا۔“

ڈاکنز: ---”۔۔مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کی تصحیح کرنا چاہوں گا کہ ڈارون صرف اپنی جوانی کےدورمیں خداکومانتاتھا  نہ کہ ایک معمر شخص کے طورپر جب اس نے ارتقا پر اپنی کتاب لکھی تھی۔“
ربی :---”ٹھیک ہے ۔۔مگر بات توپھر بھی۔۔۔۔“
ڈاکنز: ---” آپ کی بات یہ ہے کہ خدانے اس دنیا کو یوں بنایا جیسے کہ  اس میں سب کچھ ریڈی میڈ ہو۔۔ لیکن جب آپ کا واسطہ فوسلز اورریڈیوایکٹو گھڑیالوں سے پڑے گا تو  آپ کیلئے مشکل ہوجائے گی۔یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ یہ دنیا ساڑھے چاربلین سال پہلے وجود میں آئی۔۔۔“
ربی:--- ”لیکن۔۔لیکن سائنس میں اس حوالے سے آپ کومختلف اعدادوشمار ملتےہیں جن میں سالوں کا نہیں بلکہ لاکھوں یا کروڑوں سال کافرق ہے۔اس لیے سائنس کے ساتھ کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ اس کے مختلف حصے آپس میں متفق نہیں۔۔۔“
ڈاکنز:---”سائنسدانوں میں ملین یابلین سالوں کاہی اختلاف ہے ۔۔ان میں یہ اختلاف نہیں کہ یہ پانچ ہزارسال۔۔۔“
ربی:---”مگر۔۔مگر ۔۔ملین اوربلین سال کافرق وقت کااس سے بھی بڑاعرصہ ہوتاہے۔۔۔“
ڈاکنز:---”(موضوع بدلتےہوئے)۔۔۔آپ کو معلوم ہےکہ بچوں کوایسی تعلیم دی جارہی ہے کہ یہ ساری دنیا اس دورکے بعدشروع ہوئی جسے آثارِ قدیمہ کے ماہرین زرعی انقلاب کادورکہتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ بچے ایک بہت ہی مسخ شدہ دنیا میں پرورش پاتےہیں۔۔ یہ صرف یہودیت کی بات نہیں بلکہ یہ بنیاد پرست عیسائیوں اورمسلمانوں کیلئے بھی درست ہے۔ دنیا بھر میں بچوں کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو ہر ایسے انسان کیلئے  بالکل غلط ہے جس نے سائنس کامعروضی مطالعہ کیا ہو۔۔اور مجھے اس بات کی بہت فکر ہے کہ بچے ایسی بری تعلیم کا شکار بنتےہیں۔۔۔“
ربی:---”(مسکراتےہوئے)۔۔۔میں ’مسخ شدہ‘ اور’بری تعلیم‘ جیسے الفاظ کو نامناسب خیا ل کرتا ہوں ۔۔یہودیت کی اپنی روایات ہیں اورسائنسدانوں کی اپنی روایات ہیں۔۔لیکن اونچے سُروں یہ کہہ دینا کہ صرف میرے والی روایات ہی درست ہیں بغیر یہ جانے  کہ دوسروں کی روایات کیا ہیں۔۔۔“
ڈاکنز:---”۔۔۔لیکن یہ معاملہ روایات کانہیں، شواہد(Evidences) کاہے۔ روایت کامطلب یہ ہے کہ ماضی کے دانا لوگوں نے کچھ باتیں کہیں اورلکھیں اورانھیں اگلی نسلوں تک منتقل کردیا، شاید ایسے بزرگوں پر وحی بھی آتی تھی یا انھوں نے کچھ مقدس کتابوں کامطالعہ کیا تھا۔۔مگر یہ سب شواہد نہیں۔ سائنس ایسی کوئی روایت نہیں۔ سائنس شواہد کودیکھتی ہے اوراس معاملے میں شواہد بہت واضح ہیں کہ دنیا اربوں سال پرانی ہے نہ کہ محض چند ہزارسال پرانی۔۔ سائنس اس معاملے میں بالکل  واضح ہے۔۔۔“
ربی:---”میں  نہیں سمجھتاکہ واضح ہے، اسی لیے تویہ ابھی تک ارتقا کا’نظریہ‘ ہی کہلاتاہے۔۔۔“
ڈاکنز: ---”ہاں ،لیکن یہ صرف تکنیکی معنوں میں ہی کہلاتاہے۔۔۔“
ربی:---”پھر بھی کہلاتا تو ہے۔۔۔یہ ارتقا کا’قانون‘ تونہیں کہلاتا ۔۔۔“
ڈاکنز:---”میں اسے ارتقا کی ’حقیقت‘ کہوں گا۔۔۔“
ربی:---”(مسکراتے ہوئے)۔۔پھر تو آپ ایک بنیادپرست معتقد ہوئے۔۔۔“
ڈاکنز: ---”نہیں۔۔ میں بنیاد پرست معتقد نہیں ہوں۔۔۔“
ربی:---” لیکن انگریزی زبان میں تواسے ارتقا کا نظریہ ہی کہتے ہیں۔۔۔“
ڈاکنز:---”ہاں، مخصوص تکنیک فلسفیانہ اعتبارسے کہتےہیں۔اسی طرح یہ بھی نظریہ ہی کہلاتاہے کہ زمین گول ہے  چپٹی نہیں ہے اوریہ بھی۔۔۔“
ربی:---”لیکن۔۔۔لیکن یہودی توہمیشہ سے ہی زمین کوگول مانتےآئے ہیں اس وقت بھی جب باقی تمام دنیا اسے چپٹی  سمجھتی تھی۔۔۔ذراسوچیں کہ اگر اس وقت آپ میرے پاس آتے  اوریوں بتاتے کہ زمین توچپٹی ہے ، تم اسے کیسے گول کہتے ہو!۔۔۔کیونکہ اس وقت کاسائنسی عقیدہ تو یہی تھا کہ زمین چپٹی ہے اوریہودیت کا ماننا تھاکہ یہ گول ہے۔۔۔اس وقت ہماری گفتگو ہوتی تو آپ کہتے کہ سائنس کے مطابق تو زمین چپٹی ہے ۔۔۔۔“
ڈاکنز:---”۔۔۔اگر آپ سائنس کومحض ایک روایت کے طورپر لیں تو ہی۔۔۔اب سائنس کے پاس شواہد ہیں، اس وقت  کے شواہد ناقص تھے، اب ان میں بہتری لائی جاچکی ہے ۔۔صدیوں کے گزرنے  سے بہتر شواہد سامنے آئے ہیں۔۔۔“
ربی: ---”پھر تو ایسا بھی ہوسکتاہے کہ دس سال بعد آپ دوبارہ میرے پاس آئیں اورکہیں کہ ہماری سابقہ گفتگو ناقص شواہد پر مبنی تھی، لہٰذا تم واقعی صحیح کہتے تھے اور۔۔۔“
ڈاکنز:---”(سرہلاتے ہوئے)۔۔۔ہاں سائنس تبدیل ہوتی ہے اورایسی باتیں ہیں جووقت کےساتھ تبدیل ہوجائیں گی لیکن بعض معاملات میں شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ تبدیل نہیں ہوں گے۔۔۔بہت سے امور میں سائنس کی بات ایسی یقینی نہیں۔۔۔لیکن کائنات کی عمر کاپانچ ہزار سال ہونا!۔۔میں معذرت چاہوں گا محترم ربی ۔۔مگر یہ بہت ہی مضحکہ خیز ہے ۔۔ کچھ اورباتوں میں بلاشبہ آپ  درست کہتےہیں مگر کائنات کی  عمر کے حوالے سے۔۔۔“
ربی :---”میں ۔۔میں سمجھتاہوں کہ ایسی بحث کیلئے زیادہ طویل وقت درکار ہے۔ یہاں بہت سے مسائل ہیں مثلاً کاربن ڈیٹنگ جس کی بنیاد یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھی دنیا میں اتنی ہی مقدار میں تابکاری موجود تھی  حالانکہ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔۔ میرے خیال میں معاملات اتنے سادہ نہیں کہ انھیں بس یونہی پیش کردیا جائے۔۔ بہت سے سوالات ہیں جن کیلئے گہرائی میں جاکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔“

ڈاکنز: ---” ہم اس بات پر راضی کیوں نہیں ہوسکتے کہ  یہودیت میں ایک شاندار روایت  ہے جس کے مطالعے سےہم سب مستفید ہوسکتےہیں جو کہ آپ نے بھی بتائی ہےکہ۔۔۔یہ تبدیل ہوتی ہے۔ نسل درنسل اساتذہ اورربی اس پر نظرِ ثانی کرتے رہتے ہیں، اس کی نئی توجیہہ کرتے ہیں۔۔۔تو اس کوبھی دوبارہ دیکھاجائے کہ کتابِ پیدائش ایک علامتی اورشاعرانہ داستان ہے جواپنی جگہ خوبصورت ہے مگر دراصل یہ بالکل لفظی معنوں میں لینے کیلئے نہیں تھی اوراگراسے کبھی لفظی طورپرلیاجاتارہا ہے تویہ غلطی تھی۔۔۔تو ایک ماڈرن ربی کی حثیت سے آپ اس کی ایسی تعبیرِ نو کرسکتے ہیں جوماڈرن سائنس کے مطابق ہو؟“
ربی:---” ہم تورات کوخدا کے کلام کے طور پر دیکھتے ہیں، اس خالق کی طرف سے وحی کے طورپر جس نے ایک مقصد کیلئے یہ دنیا بنائی۔۔ تورات میں جو بیان ہوا ہے وہ بہت بامعنی ہے اورہم یہودیوں کیلئے بہت قیمتی ہے کہ ہمارے خیال میں اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ ایک بہتر دنیا کی تعمیر معاون ہوسکتا ہے۔۔۔جس سے انسانوں کو زندگیوں میں ایک واضح اورایک مشن پیداہوسکتاہے۔۔۔“
ڈاکنز:--- ”مگر کیا یہ ایک علامت اورتمثیل کے طورپر لیا جانا زیادہ بہتر نہ ہوگا؟“
ربی: ---”تورات میں تماثیل بھی ہیں جوبہت خوبصورت ہیں، مگر اس میں ایسے بیانات بھی ہیں جو بنیادی اورسیدھا سادہ مفہوم رکھتے ہیں۔۔اگر ہم تورات کی ہر بات کو تمثیل کہنے لگیں تو پھر ’ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘ بھی ایک علامتی چیز بن جائے گی۔۔۔“
ڈاکنز:--- ”کیا  آپ یوں نہیں کہہ سکتے کہ کتابِ پیدائش میں آدم اورحوا کی کہانی ایک تمثیل تھی خیر اورشر کی کشمکش دکھانے کیلئے؟۔۔۔ یعنی یہ واقعہ حقیقت میں واقع نہیں ہوا مگر اس میں ہمارے لیے ایک علامتی سچائی ہے؟“
ربی:---” لیکن میرے خیال میں کسی واقعے کی سچائی کاوزن تبھی ہوسکتاہے جب یہ حقیقت میں واقع ہوا ہو۔۔۔اگر یہ محض علامتی افسانہ ہو تو یہ ہم انسانوں کو ایسا متاثر نہیں کرسکتا۔۔علامتی افسانے کے طورپر ہم اس کی صرف ادبی لحاظ سےستائش کرسکتےہیں۔۔مگر ہم ایک حقیقی دنیا میں رہتےہیں، ایسی دنیا جس میں واقعات حقیقی طورپر واقع ہوتے ہیں۔ اس لیے آدم کے واقعے کو جب ہم ایک حقیقت کے طورپر لیتےہیں توپھر اس میں وزن پیداہوتا ہے جوہمیں ہماری روزمرہ زندگی کیلئے ایک نمونہ فراہم کرتاہے۔۔۔“
ڈاکنز:---”آپ سمجھتے ہیں کہ اگر اسے ایک حقیقی واقعے کےطورپر لیا جائے گا تو اس میں اخلاقی طاقت پیدا ہوگی مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں اوردراصل میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں اس مشکل سے نکلنے میں۔۔۔۔“
ربی:--- ”(مسکراتے ہوئے)۔۔۔پروفیسر ڈاکنز میں آپکاشکر گزار ہوں کہ آپ واقعی مخلصانہ طورپر دنیا کی اصلاح چاہتےہیں مگر ہم یہودیوں پر ہمیشہ تنقیدہوئی ہے اور ہمیشہ ہمارے کچھ مسائل رہے ہیں۔۔۔“
ڈاکنز:--- ”یہ صرف یہودیوں کامسئلہ نہیں۔۔یہ عیسائیت اوراسلام سمیت تمام ابراھیمی ادیان کامسئلہ ہے جو اس قصے کو قبول کرتے ہیں۔۔۔یہ قصہ سراسر شواہد کے خلاف ہے۔۔۔“
ربی:--- ” ۔۔ جو میں کہنا چاہ رہاہوں وہ یہ  ہے کہ سائنس کااپنا ایک مقصد ہے۔۔۔جب عملی مسائل کی بات ہو تویہودیت سائنس کو بہت احترام کرتی ہے لیکن یہ معاملہ عملی چیز نہیں۔ جب سائنس اس حوالے سے کچھ کہتی ہے تو دراصل وہ خود کو ایک مذہب کے لبادے میں پیش کرنےکی کوشش کرتی ہے۔۔۔“
ڈاکنز:--- ”۔۔ لیکن ہم کائنات کی عمر کابات کررہے ہیں۔ اس سے زیادہ عملی کیا ہوسکتاہے؟۔۔“
ربی:--- ”۔۔لیکن یہ حقیقت ہےکہ جب دنیا وجود میں آئی تو اس وقت نہ تو  آپ موجود تھے اورنہ میں۔۔۔“
ڈاکنز:--- ” بے شک نہیں تھے مگر شواہد۔۔۔“
ربی :---”ان شواہد پر ہم سوال اٹھاسکتے ہیں۔۔سائنس کی مختلف شاخیں  اس حوالے سے مختلف اعدادوشمار دیتی ہیں ۔۔۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ سائنس کے پاس کوئی علم نہیں، صرف مفروضے اورنظریات ہیں۔۔۔“
ڈاکنز:---”میں آپ کومتبادل تعبیر دینا چاہ رہا تھا مگر آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔۔ سائنسدان آپس میں اختلافات رکھتےہیں لیکن سب سائنسدان متفق ہیں کہ کائنات کھربوں سال پرانی ہے نہ کہ محض چند ہزارسال پرانی۔۔۔“
ربی: ---”۔۔لیکن سائنس کی مختلف شاخوں میں اس حوالے سے تخمینوں میں اربوں سال کافرق ہے۔۔۔“
 ڈاکنز:---”۔۔۔یہ بس اتنا ہی ہے کہ کچھ پانچ بلین کہتے ہیں اورکچھ چار بلین۔۔۔“
  ربی: ---”ہاں، مگر ایک بلین سال کافرق بہت بڑاہے۔۔۔“
ڈاکنز: ---”ہاں یہ بڑا ہے۔۔۔پیمائش کے طریقوں میں غلطی کامارجن ہوتاہے۔۔۔“
ربی:--- ” لیکن بلین کافرق تومحض ایک پیمائش غلطی سے بہت زیادہ ہے۔۔۔یعنی آپ ایک ارب سال کی بات کررہے ہیں نا۔۔۔۔“
 ڈاکنز:---”ہاں۔۔مگر میں کچھ مبالغہ کرگیا۔۔۔پیمائش کافرق بلین کانہیں بلکہ چند اعشاریوں کا ہے۔ عمومی اتفاق  ایک دوسرے سے خاصا قریب ہے۔۔جوکہ چاراعشاریہ چھ بلین سال ہے۔۔۔اوراعشاریوں میں یہ اختلاف چند ملین سال کاہی ہوگا۔۔۔“
ربی:---”چند ملین سال بھی وقت کاایک بڑاعرصہ ہے۔۔۔“
ڈاکنز:--- ”آپ سمجھ نہیں رہے کہ ہم یہاں کیا بات کررہےہیں۔۔ہم بات۔۔۔“
ربی: ---”۔۔ہم یہاں بات کررہے ہیں کہ سائنس کے پاس یہاں کوئی علم نہیں۔۔۔اس کانقطۂ نظر محض تھیوریٹیکل ہے۔۔“
 ڈاکنز:---”ہمارے پاس مختلف قسم کےریڈیوایکٹیو گھڑیال ہیں جوہم کائنات کی عمر کااندازہ لگانےکیلئے استعمال کرتےہیں۔۔ان کی پیمائشوں میں معمولی سی فرق ہوتاہے۔۔۔بالکل معمولی سا۔۔۔“
ربی: ---”لیکن مختلف پیمائشیں بتاتی ہیں کہ پیمائش کایہ طریقہ تاریخ کے تعین کیلئے فول پروف نہیں۔۔اگر اس کمرے میں موجود ہر فرد اس بات پر مختلف جواب دے کہ اب سے پانچ منٹ پہلے یہاں کیا ہواتھا توہم سب اس حوالے سے سوالات کرنا شروع کردیں گے کہ دراصل کیا ہواتھا۔۔۔“
ڈاکنز: ---”جیساکہ آپ نے خود کہا کہ ہم میں سے کوئی کائنات کی پیدائش کے وقت موجود نہیں تھا۔۔یہ بہت ہی ماضی بعید کاواقعہ ہے اورجب آپ وقت کاسکیل اربوں میں لے رہے  ہوں تو پیمائشی غلطی کاامکان لاکھوں میں ہوتاہے۔جب آپ وقت کاسکیل ہزاروں میں لے رہےہوں تو پیمائشی غلطی کاامکان صدیوں میں ہوگا۔۔اتنی غلطی کاامکان ہر طریقے میں ہوتاہے۔۔۔۔“
ربی:--- ”جومیں کہہ رہاہوں وہ یہ  ہے کہ تاریخ کے تعین کاکوئی فول پروف طریقہ موجود نہیں ہے  اورپیمائش کے ہر طریقے کے اپنے مسائل ہیں۔۔۔“
 ڈاکنز:---”پیمائش کاہر طریقہ پیمائشی غلطی کے امکان کے ساتھ فول پروف ہی ہوتاہے اورکائنات کی تاریخ کے پیشِ نظر یہ ملین سالوں میں ہی ہوگا۔۔۔“
ربی: ---”لیکن۔۔لیکن اس کاانحصار اس بات پر ہے  کہ کائنات ایک سیل سے شروع ہوئی ہو۔۔لیکن اگرخدانے ایک مکمل دنیا بنائی تخلیق بنائی ہے جیسا کہ ہم یہودی اعتقاد رکھتے ہیں تو ایسی مکمل دنیا میں ارتقا کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔۔۔اس لیے ہم یہاں دومختلف صورتوں کی بات کررہے ہیں۔۔۔“
ڈاکنز:--- ”مکمل دنیا سے آپ کی مراد یہ ہے کہ چٹانوں میں فوسلز پہلے سے ہی رکھ دیے گئے تھے؟“
ربی: ---”ہاں، اور تخلیق کے وقت دنیا میں بہت بڑی مقدار میں تابکاری موجود تھی۔۔۔“
 ڈاکنز:---”(مسکراتے ہوئے)۔۔۔خداواقعی کائنات کوپانچ ہزارسال پہلے ایسی بناسکتا ہےکہ وہ اربوں سال پرانی محسوس ہو۔۔۔مگر کیاآپ کے خیال میں اس نے واقعی ایسا کیا ہوگا؟۔۔یہ توپھر خدانے ہمیں دھوکادینے کی کوشش کی ۔۔۔“
ربی: ---”نہیں نہیں۔۔۔دھوکانہیں دیا۔۔۔خدا ہمیں ایک چیلنج دینا چاہتاتھا کہ ہم ایک خاص ٹائم فریم میں اپنی بہترین کوشش کرکے دنیا کو اچھی جگہ بنائیں۔۔۔کیونکہ یہودیت میں ہم خدا اورانسان کوتخلیق کے عمل میں پارٹنرز کے طورپر دیکھتےہیں، اس لیے یہ بھی تخلیق کاایک پارٹ ہے۔۔۔“
ڈاکنز: ---”(ٹھوڑی کھجلاتے ہوئے)۔۔۔چلیں دوبارہ تعلیم پر بات کرتےہیں۔۔۔۔“

}وضاحت : اس انٹرویو کے ترجمے کامقصدایک ربی کااپنے عقائد پر ایمان واستقامت کے ساتھ کھڑے رہنادکھانا ہےجوکہ متاثر کن تھا۔اس کامقصد ہرحال میں سائنس کے خلاف ہٹ دھرمی سکھانا نہیں ہے اور نہ ربی کے سب عقائد اورباتوں سے اتفاق کیا جاسکتاہے  {
                                                                                                                                                       *******************************                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         

No comments:

Post a Comment