Sunday, December 8, 2019

غامدی صاحب کاقرآنی تصورِ ارتقا


غامدی صاحب کاقرآنی تصورِ ارتقاء

                                                                                                                     جاوید احمد غامدی صاحب اوربعض دوسرے جدیدمفسرین سورۃ سجدہ ان آیات کو قرآنی تصورِ ارتقا کاماخذ سمجھتے ہیں:

” اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اس کی نسل ایک ایسے سَت سے چلائی جو حقیر پانی  کی طرح   کاہے۔پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اوراس کے اندر اپنی روح پھونک دی اورتم کو کان دیے ، آنکھیں دیں اوردل دیے۔تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔“(11-7)

                                                                                                               قدیم مفسرین  ان آیات کوماں کے پیٹ کے اندر جنین کے مراحل پر محمول کرتے تھے۔یعنی جب رحمِ مادر میں جنین کو نشوونما دے کر اللہ اس میں اپنی روح پھونکتاہے۔ تاہم غامدی صاحب کاخیال ہےکہ یہ آیات دراصل ایک طرح کا ارتقا بیان کررہی ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں :

 وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ۔۔۔ یہ پہلے مرحلے کا بیان ہے، جب انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا۔ اِس کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو انسان کی پیدایش کے لیے اب اختیار کیا جاتا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ اب جو عمل ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اُس وقت زمین کے پیٹ میں ہوا۔ چنانچہ مٹی کے وہی اجزا جو غذا کی صورت میں ہمارے اندر جاتے اور حقیر پانی کے خلاصے میں تبدیل ہو کر اُس عمل کی ابتدا کرتے ہیں جس سے انسان بنتے ہیں، اُس وقت سڑے ہوئے گارے کے اندر اِسی عمل سے گزرے۔ یہاں تک کہ جب خلقت پوری ہوگئی تو اوپر سے وہی گارا انڈے کے خول کی طرح خشک ہو گیا جس کے ٹوٹنے سے جیتی جاگتی ایک مخلوق نمودار ہوئی جسے انسان کا حیوانی وجود کہنا چاہیے۔ اِس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسری تمام مخلوقات بھی پہلی مرتبہ اِسی طریقے سے وجود میں آئیں۔
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍیہ ۔۔۔دوسرا مرحلہ ہے جس میں اِس طرح بنائی جانے والی مخلوق نے اپنی نسل آپ پیدا کرنی شروع کر دی۔ چنانچہ وہی عمل جو زمین کے پیٹ میں ہوا تھا، اب وہ ماں کے پیٹ میں ہونے لگا۔ یہ انسان کا وہ دور ہے، جب وہ علم و ادراک سے محروم محض ایک ناتراشیدہ حیوان تھا۔
ثُمَّ سَوَّاهُیہ۔۔۔یہ تیسرا مرحلہ ہے جس میں غالباً کئی نسلوں کے اختلاط سے انسان کے حیوانی وجود کو نک سک سے درست کیا گیا، یہاں تک کہ وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے انسان کی شخصیت عطا کی جائے۔ چنانچہ اِس مخلوق کے جو افراد اُس وقت موجود تھے، اُن میں سے دو کا انتخاب کرکے خدا کی طرف سے ایک لطیف پھونک کے ذریعے سے جسے قرآن میں روح کہا گیا ہے، یہ شخصیت اُسے عطا کر دی گئی۔ یہی آدم و حوا تھے۔ اِس کے بعد جو انسان پیدا ہوئے، وہ سب اِنھی کی اولاد ہیں۔ قرآن کے اِس بیان سے، اگر غور کیجیے تو اُن تمام آثار کی نہایت معقول توجیہ ہو جاتی ہے جو سائنسی علوم کے ماہرین نے اب تک دریافت کیے ہیں اور جنھیں ڈاروینیت کے علم بردار اپنی تائید میں پیش کرتے اور اِس طرح اُن گتھیوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کے نظریے میں نہ پہلے حل ہوئی ہیں، نہ آیندہ کبھی ہوں گی۔
ۚوَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ۔۔۔یہ نفخ روح کا نتیجہ ہے جس نے بصیرت و ادراک سے محروم ایک حیوان کے اندر سمع و بصر اور دل و دماغ کی وہ صلاحیتیں پیدا کر دیں جو تمام حیوانات کے مقابل میں اُس کے لیے وجہ امتیاز ہیں۔ چنانچہ اب وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے مخاطب کرکے یہ کہا جا سکے کہ ہم نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے۔“ (البیان)

                                                                                                                      یعنی غامدی صاحب کے مطابق اللہ نے پہلے مٹی سے آدم کو پیداکیا جس سےآدمی نما حیوان وجود میں آئے۔  یہ حیوانی آدمی پھر دیگر جانداروں کی طرح زمین میں  جنسی تولید کے ذریعے پھیلتے چلے گئے۔ جب ان کی کافی آبادی ہوگئی تو اللہ نے ان میں سے نر اورمادہ کے ایک  بہترین جوڑے کو منتخب کیا۔اس جوڑے کی جسمانی اورذہنی لحاظ سے  تراش خراش  کی  اورپھر ان میں اپنی طرف سے روح پھونک کر انھیں آدمی سے انسان بنا دیا۔ ان حیوانی آدمیوں میں سےاللہ کامنتخب کردہ جوڑا ہی وہ آدم و حوا تھے جس کاذکر قرآن میں کئی مقامات پر آتاہے۔

                                                                                                    غامدی صاحب کی اس تفسیر پر کئی اعتبار سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر یہی کہ   اگر واقعی صورتحالیہی تھی تو پھر قرآن نے اسےمبہم اشارات کی بجائے واضح  اوردوٹوک انداز میں بیا ن کیوں نہ  کردیا جبکہ  وہ خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ قرآنِ مبین یعنی صاف صاف اسلوب میں بات کرنے والی کتاب   ہے؟

                                                                                           تاہم قرآن کا جو بیان غامدی صاحب کی اس ساری فکری عمارت کی بنیا د ہی منہدم کردیتاہے ، وہ سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت ہے:

”اللہ کے نزدیک عیسٰی کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا اورحکم دیا کہ ہوجا اوروہ ہوگیا۔(59)

                                                                                  یعنی عیسٰی ؑ کی طرح آدمؑ کا بھی کوئی باپ نہیں تھا۔اس لیے اس قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں  رہتی کہ آدم کسی حیوانی نسل سے تھے ۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے حیاتیاتی والدین کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس کے بعد اس آیت میں ’ہوجا اوروہ ہوگیا ‘ کے الفاظ بھی واضح طورپر بتارہے ہیں کہ آدم کی پیدائش زمین کے پیٹ میں آب وگِل کےکیمیائی مراحل کے ذریعےصدیوں میں نہیں ہوئی تھی بلکہ اللہ کے حکم سے چشم زدن میں آدم وحوا کو پیداکردیا گیا تھا۔

*********************

 


1 comment:

  1. Adam O Hawa ke baad insan / heywan ki nasal ka kia hua? kia wo log khatam kar diay gaey?. bcoz wo apni afzaish nasal kudh kar rahay thay

    ReplyDelete