Wednesday, November 20, 2019

اندھا اوربے سمت ارتقاء؟

اندھا اوربے سمت ارتقاء؟

                                                                                                                                                               ملحد سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین پر ہونے والے حیاتیاتی ارتقاء کامقصد انسان جیسی کسی باشعور نوع کو وجود میں لانا نہیں تھا۔جاندار ارتقائی کشمکش میں محض بقاء و تناسل کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اوراس کے نتیجے میں ہر نوع اپنے ماحول کے اندر اپنے انداز میں ترقی کرکے ایک انفرادیت اورامتیاز حاصل کرتی ہے۔اس اعتبار سے سب ہی انواع یکساں طورپر ارتقاء یافتہ ہیں۔اس حوالے سے وکی پیڈیا کے ایک آرٹیکل کا اقتباس ہے:

“… the idea of development is a result of erroneously assuming that evolution is directional or has a specific goal in mind. In reality, the evolution of an organism has no “objective” other than to survive and reproduce in its environment. Biologists do not consider any one species, such as humans, to be more evolved or advanced than another… Evolution also does not require that organisms become more complex…Depending on the situation, organisms’ complexity can increase, decrease, or stay the same, and all three trends have been observed in evolution.” (Wikipedia)
”۔۔۔(ارتقاء میں) آگے کی طرف ترقی کاتصور اس غلط مفروضے کا نتیجہ ہے کہ ارتقاء کی کوئی سمت ہوتی ہے یا اس کے پیش نظر کوئی ہدف ہوتاہے۔ درحقیقت جانداروں کے ارتقاء کامقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ماحول میں بقاء اورتولید میں کامیابی حاصل کریں۔ ماہرینِ حیاتیات کسی بھی نوع مثلاً انسان ، کوزیادہ ارتقاء یافتہ یا دوسری انواع سے زیادہ ترقی یافتہ خیال نہیں کرتے۔۔۔ارتقاء کاتقاضا یہ نہیں کہ جاندار سادہ صورت سے لازماً پیچیدہ ہوتے چلے جائیں۔۔ اپنے اپنے ماحول کے مطابق جانداروں کی ارتقائی پیچیدگی بڑھ بھی سکتی ہے، کم بھی ہوسکتی ہے یایکساں بھی رہ سکتی ہے اور یہ تینوں ہی رجحانات ارتقاء کے عمل میں دیکھے گئے ہیں۔“ 


                                                                                                                                                      یہ بیان تکنیکی نقطۂ نظر اور حکیمانہ نقطۂ نظر میں فرق ظاہر کرتاہے۔ تکنیکی نقطۂ نظر کسی مظہر کو باقی کائناتی عمل سے کاٹ کر محض ایک جزئی واقعے کے طور پر دیکھتاہےجبکہ حکیمانہ نقطۂ نظر ایک جزو کو باقی اجزاء کے ساتھ رکھ کر سمجھتاہے۔ اس کوسمجھنے کیلئے فٹ بال کے میچ کی مثال لیتے ہیں ۔فرض کیا جائے کہ دیکھنے والے کو صرف کھلاڑی ہی دکھائی دے رہے ہیں، نہ تو انھیں فٹ بال دکھائی دے رہا ہے اورنہ گول((goal کے پول اور نہ ہی انھیں مختلف ٹیموں کے کھلاڑیوں میں یونیفارم کی تمیز ہورہی ہے۔ایسے میں ایک حرکیات کاماہر صرف یہی دیکھے گا کہ ایک ٹیم کے کھلاڑی بلامقصد حرکت کررہے ہیں، بلاشبہ زیادہ تر وہ آگے کی طرف بڑھنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتےہیں مگر اس کے ساتھ وہ دائیں اور بائیں بھی حرکت کرتے ہیں بلکہ کبھی تو باکل پیچھے کی جانب بھی دوڑپڑتے ہیں۔لہٰذا وہ ماہر یہی رائے قائم کرے گا کہ ان کھلاڑیوں کے سامنے اس کےعلاوہ اور کوئی مقصد نہیں کہ وہ اپنے مسلز  کو استعمال کرکے انھیں قوی اور لچکدار بنائیں!

                                                                                                                                بالکل اسی طرح ماہرین حیاتیات بھی جب ارتقاء کو نفسیات،جمالیات اور اخلاقیات سے جدا کرکے خالصتاً تکنیکی نظر سے دیکھتے ہیں تو انھیں اس کی کوئی منزل محسوس نہیں ہوتی۔وہ نہیں سمجھتے کہ ارتقاء ایک جدوجہد، ایک سعئ مسلسل کا نام ہے جس میں جارحانہ انداز میں آگے ہی بڑھنا مقصود ہےمگر کبھی مدافعانہ طورپر پیچھے بھی ہٹنا پڑتاہے، پیچیدگی ہی مطلوب ہے مگرکبھی سادگی  پر بھی قناعت کی جاتی ہے جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی گول کرنےکو اپنا مقصد سمجھتےہوئے ناک کی سیدھ میں آگے کی طرف ہی نہیں دوڑتا بلکہ کبھی دائیں یا بائیں بھی  حرکت کرتاہے اور کبھی اپنی اب تک کی پیشرفت کو بچانےکیلئے دفاعی انداز بھی اختیار کرلیتا ہے۔

                      اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تکنیکی ذوق ادھوری بصیرت فراہم کرتاہےاور جب تک سائنس کے ساتھ فلسفہ و حکمت کا جوڑ نہ ہو، حقیقتِ مطلقہ کے بارے میں کوئی درست رائے قائم کرنا محال ہے۔ماضی میں فلسفہ تھا مگر علم نہیں تھا اس لیے فلسفی قیاس کا سہارا لیتے تھے۔آج علم ہے مگر اس کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر بصیرت بنانے والا فلسفہ نہیں ہے۔فارسی کی کہاوت ہے :"یک من علم را دہ من عقل می باید" یعنی ایک من علم سے فائدہ اٹھانے کیلئے دس من عقل درکار ہوتی ہے۔      
          
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


No comments:

Post a Comment