Monday, March 2, 2020

ملحدین اور کائنات کی حقیقت کا سوال


ملحدین اور کائنات کی حقیقت کا سوال

                                                                                                  رچرڈ ڈاکنز اپنی کتاب “The Blind Watchmaker” میں زندگی کے آغاز کے حوالے سے لکھتاہے:

“We can accept a certain amount of luck in our explanation (of origin of life), but not too much. The question is, how much? The immensity of geological time entitles us to postulate more improbable coincidences than a court of law would allow but, even so, there are limits…
    The more we can get away from miracles, major improbabilities, fantastic coincidences, large chance events, and the more thoroughly we can break large chance events up into a cumulative series of small chance events, the more satisfying to rational minds our explanations will be ….” (p.139, 141)
”ہم (زندگی کا ابتداءکے حوالے سے) اپنی توجیہہ میں ایک خاص حد تک ’اتفاق‘ قبول کرسکتے ہیں، لیکن بہت زیادہ نہیں۔سوال یہ ہےکہ کتنی حد تک؟ ارضی زمان کی طوالت ہمیں زیادہ غیرممکن اتفاقات فرض کرنے اجازت دیتی ہے، لیکن پھربھی یہاں کچھ حدود ہیں۔۔۔
ہم (زندگی کی تشریح میں )جتنا زیادہ معجزات، غیرمعمولی ناممکنات، حیرت انگیز اتفاقات اور بڑے حادثاتی واقعات سے دور رہیں گے، اور جتنا مکمل طورپر بڑے اتفاقی واقعات کو چھوٹے چھوٹے اتفاقات کے تدریجی سلسلے میں تحلیل کر سکیں گے، اتنی ہی ہماری توجیہہ  عقلیت پسند ذہنوں کیلئے اطمینان بخش ہوگی۔۔۔“

                                                                                                                                               انسانی عقل کی اس خاصیت سے سب واقف ہیں کہ وہ کسی واقعے کی وضاحت میں اتفاقات اور تُکوں (Flukes) کوایک حد تک ہی مان سکتی ہے۔اگر عقل سے کہا جائے  کہ:

”کبھی کچھ کاموں میں تُکے بھی لگ جاتے ہیں“۔۔۔۔تو عقل بخوشی مان لے گی کہ ہاں کبھی تُکے سے کچھ  کام ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر عقل کو یہ کہہ دیا جائے کہ:

”کبھی تُکے پہ تُکا بھی لگ جاتاہے“۔۔۔۔۔ تو کچھ تامل کے بعد عقل یہ بھی مان لے گی کہ ہاں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوسکتاہے کہ ایک تُکے پر دوسرا تُکا لگ جائے۔ لیکن پھر اگر یہ کہا جائے کہ :

” کبھی تُکے پہ تُکا لگتاہی چلاجاتاہے“۔۔۔۔۔ تو اب انسانی عقل سرخ جھنڈی لہرا دے گی کہ بس، اتنے زیادہ تُکوں کے  سلسلے کو ماننا اس کیلئے ممکن نہیں!

                                                                                                                     رچرڈ ڈاکنز جیسے ملحدین جب  کائنات اور زندگی کی ابتداء کے حوالے سے ایسےنظریات بنانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سب کچھ یکے بعد دیگرےچھوٹے چھوٹےاور معصوم سے اتفاقات کے ذریعے وجود میں آگیا ہو۔۔۔۔ مثلاً پہلےایک اتفاق سے کائنات خودبخود ظاہر ہوگئی، پھر اتفاق و حوادث کے طویل سلسلے کے بعد  یہ یوں منظم بھی ہوگئی اور اس میں طبعی قوانین  اور اصول  بھی ظاہر ہوگئے، اس کے بعد پھر ایک اور تکا لگا اور ایک نامیاتی مالیکیول پیدا ہوگیا،  پھر ایک حسین اتفاق یہ ہوا کہ اس مالیکول نے خود اپنی نقل بنانے (Replication) کی صلاحیت حاصل کرلی اور کبھی کبھی  اسے اپنی ہوبہو نقل بنانے میں غلطی بھی لگنے لگی جس سے اس کی کاپیوں میں تنوع ظاہر ہونے لگا، بات یہاں ہی نہیں رکی ، بلکہ اس اتفاقی کائنات میں ایک قدرتی انتخاب (Natural Selection) کا قاعدہ بھی دریافت ہوگیا جس کے ذریعے سادہ یک خلوی جانداروں سے پیچیدہ جانداروں وجود میں آنے شروع ہوگئے اوریونہی کرتے کرتے پھر ہم جیسی باشعور مخلوق ظاہر ہوگئی۔۔۔۔۔۔تو ایسی توجیہات دیکھ کر اور ایسے خیالات سن کر ذہن میں سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر ملحدین کی وہ کون سی مجبوری ہے جس کے تحت انھوں نے کائنات اور زندگی کی تشریح لازماً اتفاقی حادثات (یعنی تُکے پہ تُکا)کے ذریعے ہی کرنی ہے ، خواہ ایسی توجیہہ عقل کے حلق سے نیچے بھی نہ اترتی ہو؟ آخر  کائنات کی تشکیل  اور زندگی کی پیدائش میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت کی مابعد طبعی قوت یا ذہانت کو مان لینے میں کیا حرج ہے؟

                                                                                                                   اس کاجواب یہی سمجھ میں آتاہے کہ ملحدین  نے دراصل ایک منفی نفسیات میں مبتلا ہوتے ہیں  اوراس کے تحت انھوں نے ہر اس دروازے کو بند کرنا ہے جس سے خدا  کائنات کےاندر داخل ہوسکتاہو اور ہر اس راستے پر پہرے بٹھانے ہیں جو مذہب کی طرف جاسکتے ہوں۔ طریقہ کارکی فطریت (Methodological Naturalism) سائنس کی ایک جائز ضرورت ہے لیکن اسے مادہ پرستی (Materialism) کی انتہاؤں تک لے جانا ملحدین کے ایمانیات کاحصہ بن گیا ہے۔اب ان کاایک مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ کائنات میں کسی بھی طرح کی معنویت(خواہ وہ کتنی ہی شاعرانہ سی کیوں نہ ہو) اور کسی بھی مقصدیت (خواہ وہ غیرمذہبی نوعیت ہی کی کیوں نہ ہو) کو تسلیم نہیں کرنا کیونکہ اس سے ان کا خدا اور مذہب کے خلاف قائم کردہ مقدمہ کمزور ہوجائے گا۔

                                                                                                                 ملحدین اس نکتے کو نظر انداز کرتے ہیں کہ خدا اور مذہب کے تصورات انسانی عقل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے ایک سوال (کہ کائنات کہاں سے آئی اور ہم یہاں کیوں موجود ہیں) کا جواب ہیں۔ اگر یہ جواب غلط  ہو تو بھی اس سے خود یہ سوال ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ اپنی جگہ موجود رہتاہے۔ ملحدین جب خدا اور مذہب کاکوئی متبادل پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں توجھنجلاکر اس سوال کو غلط قرار دے دیتے ہیں۔حالانکہ اصولاً انھیں مسئلہ صرف جواب سے ہونا چاہیئے نہ کہ خود سوال سے۔ ۔۔مگر یہاں ایک ملحد کی پوزیشن ایسے ممتحن کی سی ہوجاتی ہے جو مارکنگ کرتے ہوئے جواب کے ساتھ خود سوال پر بھی کراس لگادیتاہے اور امیدوار کوصفر میں سے صفرمارکس دیتاہے کیونکہ اس کے خیال میں جواب بھی غلط تھا اور سوال بھی !! ۔۔۔۔بلکہ وہ سمجھتاہے کہ ایسا کوئی مضمون ہونا ہی نہیں چاہیئے جس کے پرچے میں سوالات بھی غلط ہوتے ہیں اورامیدواران کے جوابات بھی غلط ہی دیتے ہیں۔۔۔ اسی لیے زیادہ تر ملحدین کا رجحان لامقصدیت (Nihilism) کی طرف ہوجاتاہے جس کے مطابق کائنات میں زندگی سمیت ہر شے بے معانی اور بے مقصد ہے!!!

**************************

2 comments: