Saturday, February 29, 2020

نظریۂ ارتقا: اکیسویں صدی میں


نظریۂ ارتقا: اکیسویں صدی میں

                                                                                                                         آج کل کالجوں اور یونیورسٹیوں  کی نصابی کتب میں جو نظریہ ارتقاء پڑھایا جاتاہے، وہ دراصل ڈارونزم اور مینڈل ازم کا ایک مرکب (Synthesis) ہے جسے نیوڈارونزم بھی کہا جاتاہے۔ چارلس ڈارون نے 1859ء میں ارتقاء بذریعہ قدرتی انتخاب (Natural Selection) کا نظریہ پیش کیا تھا جس کے مطابق اپنے ماحول سے بہتر مطابقت رکھنے والے جاندار ہی باقی رہتےہیں اور گریگرمینڈل نے 1866ء میں حیاتیاتی وراثت کے قوانین دریافت کیے تھے جو 1900ء کے بعد مغربی دنیا میں متعارف ہوئے۔ مینڈل کے مطابق جینز (Genes) وراثت کی اکائی کے طورپر ایک نسل سے دوسری نسل میں متعین اصولوں کے تحت منتقل ہوتے ہیں۔

Charles Darwin and Gregor Mendel


                                                                                                                  بیسویں صدی کے ابتدائی نصف حصے میں ماہرینِ حیاتیات دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور اس دوران ڈارونزم اور مینڈل ازم کے حامیوں کے مابین گرما گرم مباحثے ہوتے رہے۔ بالآخر 1940ء  کی دہائی میں دونوں کے درمیان ایک مفاہمت پیدا کرلی گئی جسے جدید نظریۂ ارتقاء(Modern Theory of Evolution) کہا جاتاہے اور اس  ورژن کوہی آج کی سائنسی کمیونٹی متفقہ طورپر قبول کرتی ہے۔اس ورژن کے مطابق ارتقاء کی تعریف یوں ہے کہ:

                                                                                                  ارتقاء کا عمل جین مرتکز(Gene-centered) ہوتاہے یعنی یہ دراصل ”خودغرض جین“ ہے جو اپنی بقاء کیلئے جانداروں کے اجسام کو ایک ذریعہ(Vehicle) کے طورپراستعمال کرتاہے۔ جانداروں کے جسم عارضی(Disposable) ہوتے ہیں، جبکہ جینز غیرفانی(Immortal) ہوتے ہیں۔مروجہ نظریۂ ارتقاء کے مطابق ڈی این اے اپنے اندر تمام جینیاتی معلومات رکھتاہے جن کی ہدایات کے تحت پروٹین ، ایمبریو اور مکمل جاندار وجود میں آتاہے۔ جانداروں میں تولید (Reproduction) اور خلوی تقسیم (Cell Division) کے دوران جب جینیاتی معلومات کی منتقلی ہوتی ہے  تو ایسے میں ”نقل کی غلطیاں“(Replication Errors) ہوجاتی ہیں جن سے نئی جینیاتی معلومات کی بنا پر نئے جینیاتی اوصاف ظاہر ہوتےہیں جو جاندار کیلئے مفید بھی ہوسکتے ہیں اور مضر بھی۔ جب یہ جینیاتی تغیرات (Genetic Mutations) ایمبریو اور جسمانی اعضاء کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تو اس کے بعد قدرتی انتخاب (Natural Selection) ما حول سے بہتر مطابقت کی بنیاد پرمفید جینیاتی تبدیلیوں کو منتخب کرلیتاہے اور مضر تبدیلیوں کو مسترد کردیتاہے۔ یوں ایسی چھوٹی چھوٹی ، لاتعداد اور مسلسل جینیاتی تبدیلیاں جب اربوں سال تک قدرتی انتخاب کی کسوٹی پر پرکھی جاتی رہتی ہیں تو اس کے نتیجے میں وہ متنوع اور پیچیدہ اجسام رکھنے والی انواع (Species) وجود میں آتی ہیں جو آج ہمیں کرۂ ارض پر دکھائی دیتی ہیں۔یہ انواع ایک مشترکہ منبع (Common Descent) سے ارتقا پذیر ہوتے ہوئے  مختلف اور رنگارنگ صورتوں میں ظاہر ہوئی ہیں۔

                                                                                                        ڈارونزم اور مینڈل ازم کااشتراک اس دور میں ہوا  جب جینیات اور مالیکیولر بیالوجی میں زیادہ کام نہیں ہوا تھا اگرچہ نیوڈارونزم کے حامی ان میدانوں میں سامنے آنے والے نئے مشاہدات اور دریافتوں کوروایتی نظریہ ارتقاء کے فریم ورک کے اندر رکھ کرہی پیش کرتے آئے ہیں۔تاہم جینیات اور سیل بائیولوجی کے شعبوں میں کام کرنے والے بعض تحقیق کاروں نے نیوڈارونزم کی محدودیت پر سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مائیکرو بیالوجی اور جانداروں کے سیل کے حوالے سے کچھ ایسے مشاہدات سامنے آئے ہیں جن کی وضاحت مروجہ نظریۂ ارتقا ء کے اندر رہ کر نہیں کی جاسکتی، بلکہ اس کیلئےایک خلیہ مرتکز(Cell-centered) رسائی (اپروچ) کی ضرورت ہے۔

                                                                                                             اس حوالے سے ایک نمایاں نام باربرا میک کلنٹاک(Barbara McClintock) کا ہے جو ایک امریکی ماہر جینیات(Geneticist) تھی۔ 1983ء میں جب باربرا کو اس کی ایک طبی دریافت پر نوبیل پرائز سے نوازا گیا تو اس موقع پر اس نے اپنے خطاب میں کہا:

“In future, attention undoubtedly will be centered on the genome, with greater appreciation of its significance as a highly sensitive organ of the cell that monitors genomic activities and corrects common errors, senses unusual and unexpected events, and responds to them, often by restructuring the genome.”(‘The significance of responses of  the genome to challenge’. Science: 226, 792-801 (1984)).
”مستقبل میں توجہ کامرکز بلاشبہ جینوم ہوگا، ایک ایسے سیل کے حساس حصے کے طورپر جو اپنے اندر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتاہے، ان میں ہونے والی غلطیوں کی اصلاح کرتاہے، غیر معمولی اور غیرمتوقع طورپر رونما ہونے والے واقعات کا پیشگی ادراک کرتے ہوئے ان سے نمٹتاہے اور اس کیلئے اکثر وہ اپنے جینوم کی تعمیرِ نو بھی کرتاہے۔“

Barbara McClintock


                                                                                                                            اس کے بعد باربرا کے ہی ایک ساتھی امریکی بائیولوجسٹ جیمز اے شپیرو(James A. Shapiro) نے اپنی 2011ء میں شائع ہونے والی کتاب “Evolution: A View from the 21st Century” (ارتقاء: اکیسویں صدی کی نظر سے) میں ارتقاء کاایک نیا نظریہ سائنسی شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔شپیرو کے مطابق ارتقاء اتفاقی اور حادثاتی تغیرات (Random Mutations) کا نام نہیں بلکہ سیل کے اندر ایک قدرتی جینیاتی انجنیئرنگ (Natural Genetic Engineering) کا عمل کارفرما ہوتاہے جو جانداروں میں نئی جینیاتی جدتیں (Genomic Innovations) پیداکرتاہے جن کے ذریعے وہ اپنے ماحول میں بقاء (Survival)، نمو (Growth) اور پھیلاؤ (Proliferation) کے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔



جیمز شپیرو کے نظریہ ارتقاء کے بنیادی نکات یہ ہیں:

1)        خلیہ (سیل) ڈی این اے کا غلام نہیں ہوتاکہ جو جینیاتی معلومات ایک بار وصول ہوجائیں ، وہ لازماً ان کے تحت ہی جانداروں کے اجسام کی تشکیل کرے، بلکہ سیل ایک سسٹم کی طرح کام کرتے ہوئے نئی ضروریات کے پیشِ نظر اپنے جینوم کی تنظیمِ نو(Re-organization) اور تعمیرِنو (Restructuring) بھی کرتا ہے۔ایک سسٹم کے طورپر سیل ایک احساس وادراک(Cell Cognition) کا حامل بھی ہوتاہے، سیل اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے دستیاب صورتوں میں سے اپنے لیےبہتر کے انتخاب کافیصلہ(Cellular Decision-making) بھی کرتاہے اورجینوم کے اندر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے چیک پوائنٹس(Cell Cycle Checkpoints) بھی بناتاہے۔شپیرو کے مطابق روایتی ارتقاء کے نظریات دراصل بیسویں صدی کے صنعتی اور مشینی دور کی میکانکی تعبیرات کے زیرِ اثر اختیار کیے گئے تھے ،جبکہ اکیسویں صدی کی سائنس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت نئی تعبیرات اختیا رکررہی ہے:

“…over past half century… we have witnessed a paradigm shift in Scientific thinking from an atomistic, mechanical, reductionist viewpoint to a systems perspective that incorporates cell circuitry and molecular networks into a more integrated view of cellular and organismal activities, based in large measure on information processing. Current “systems” thinking attributes primary functional significance to the collective properties of molecular networks rather than to the individual properties of component molecules.”(Evolution: A View from 21st Century, p.129)
”۔۔۔ گزشتہ نصف صدی میں ۔۔۔ ہم سائنسی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں جو ایک جوہری، میکانکی اور تحدیدی طرزِفکر سے ایک ایسے تنظیمی تناظر کی طرف جارہی ہے جو سیلز کو مالیکیولر نیٹ ورکس کی طرح لے کرخلوی اور حیاتیاتی سرگرمیوں کو انفارمیشن پروسیسنگ کے عمل کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ ”سسٹمز“ طرزِ فکر مالیکیولر نیٹ ورکس کی انفرادی خصوصیات کی بجائے ان کے مجموعی اوصاف کو زیادہ اہمیت دیتاہے ۔“

“The contemporary concept of life forms as self-modifying beings coincides with the shift in Biology from a mechanistic to informatic view of living organisms.”(p.4)
”زندگی کی صورتوں کو ایک خوداصلاحی موجودات کے طورپر دیکھنے کاتصور بیالوجی میں میکانکی نقطۂ نظر سے انفارمیشن نقطۂ نظر کی طرف تبدیلی ہے۔“

2)        مروجہ نظریہ ارتقاء کے نزدیک جینوم دراصل ایک Read-only memory = ROMسسٹم کی طرح ہوتاہے جس میں تبدیلی کی صورت صرف نقل کی غلطی(Copying Error) ہے۔ تاہم شپیرو کے مطابق:

“For over six decades, however, an increasingly prevalent alternative view has gained prominence. The alternative view has its basis in Cytogenetics and molecular evidences. This distinct perspective treats the genome as a Read-Write (RW) memory system subject to nonrandom change dedicated cell function.”(p.28)
”تاہم گزشتہ چھ دہائیوں سے ایک متبادل نقطۂ نظر نمایاں ہواہے۔ اس متبادل نقطۂ نظر کے حق میں سائٹوجینیٹک اورمالیکیولر شواہد موجود ہیں۔ یہ منفردتناظر جینوم کو ایک ریڈ-رائیٹ میموری سسٹم کی طرح دیکھتاہے جس میں مخصوص سیل فنکشن کے ذریعے غیراتفاقی تغیر واقع ہوتاہے۔“

                                                                                                 ریڈ-رائیٹ میموری سسٹم میں سیل محض جینیاتی معلومات کو پڑھ کر من وعن ان پر عمل نہیں کرتا بلکہ اپنی ضروریات کے مطابق ان میں نئی معلومات کا اندراج بھی کرتاہے۔ شپیرو کے مطابق ارتقائی وقت (Evolutionary Time) میں سیل اپنے جینوم کو دوبارہ بھی لکھتے(Rewrite) ہیں۔

3)      ارتقاء کا عمل جینوم کے اندر اتفاقی تبدیلیوں(Random Mutations) کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ سیل  قدرتی جینیاتی انجنیئرنگ(Natural Genetic Engineering) کے ذریعے اپنے ڈی این اے کی معلومات کو خارجی ماحول کی ضروریات اورچیلنجز کے مطابق تبدیل اور منظم کرتاہے۔ یوں نئے جینیاتی اوصاف ”نقل کی غلطیوں“ کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ مستعد خلوی افعال(Active Cell Processes) کی کارگزاری ہوتے ہیں۔ شپیرو کے الفاظ میں:

“Instead of cell and organismal properties hardwired by an all-determining genome, we now understand how cells regulate the expression, reproduction, transmission, and restructuring of their DNA molecules.” (p.4)
”بجائے اس کےکہ خلوی اور حیاتیاتی خصوصیات ایک جینوم کے جبر کے تحت متعین کی گئی ہوں،اب ہم سمجھتےہیں کہ سیل کس طرح  اپنےڈی این اے  مالیکیولزکے اظہار، پیدائش، انتقال اورتعمیرِ نو کو کنٹرول کرتے ہیں۔“

                                                                                                سیل کے اندر انجنیئرنگ کایہ عمل اتنا منظم اور پیچیدہ ہوتاہے کہ شپیرو کے بقول:

“It requires great faith to believe that a process of random, accidental genome change could serve this function.” (p.134)
” یہ یقین کرنے کیلئے بڑے ’ایمان‘ کی ضرورت ہے کہ ایساعمل اتفاقی اورحادثاتی جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ہوسکتاہے۔“

4)       ڈارون کے خیال میں ارتقاء کا عمل بہت ہی چھوٹی چھوٹی اور معمولی تبدیلیوں کے ذریعے بڑی سست رفتار تدریج کے ساتھ وقوع پذیر ہوتاہے۔لیکن شپیرو اس سے اختلاف کرتاہے:

“The advent of molecular genetics and genome sequencing was a major step forward in evolutionary science. Examining the DNA record made it possible to subject traditional evolution theories to rigorous empirical testing. Do the sequences of contemporary genomes fit the predictions of change by “numerous, successive, slight variations,” as Darwin stated, or do they contain evidence of other, more abrupt processes, as numerous other thinkers had asserted? The data are overwhelmingly in favor of the saltationist school that postulated major genomic changes at key moments in evolution…. Contrary to the views of Linnaeus and Darwin, nature does indeed make leaps, and we now have molecular evidence of how some leaps occurred.”(p.89)
”مالیکیولرجینیات کاظہور اور جینوم ترتیب کا مطالعہ ارتقائی سائنس میں ایک بڑی پیش رفت تھی۔ ڈی این اے ریکارڈ کے معائنے نے ارتقاء کے روایتی نظریات کو پرکھنا ممکن بنادیا ہے۔ کیا جانداروں کے موجودہ جینوم کا مطالعہ ڈارون کی ”لاتعداد،مسلسل اور معمولی تبدیلیوں“ کی پیش گوئی پر پورا اترتاہےیا یہ دیگر سائنس دانوں کے اس خیال کی توثیق کرتاہے کہ ارتقائی تبدیلیاں اچانک واقع ہوتی ہیں؟ شواہد کثرت سے اس نظریے کی تائید کرتےہیں کہ جینیاتی تبدیلیاں اہم ارتقائی مراحل میں یکایک رونما ہوتی ہیں۔۔۔ ڈارون کے خیالات کے برعکس، فطرت واقعتاً چھلانگیں لگاتی ہے اوراب ہمارے پاس ایسی ارتقائی چھلانگوں کے مالیکیولرشواہد موجود ہیں۔“

5)       کیا سیل  بھی جینیاتی انجنیئرنگ کا عمل انسانی انجنیئرنگ کی طرز پر کرتےہیں؟ اس کے جواب میں شپیرو کہتاہے :

“The brief answer is that they have the capacities needed for a process similar to the kind of engineering humans undertake when we want to develop novel products or carry out established functions in a more efficient or responsive manner.” (p.129)
”اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ سیلزواقعی ایسی صلاحیتیں رکھتےہیں جیسی انسانی انجنیئرنگ میں درکارہوتی ہیں جب ہم کوئی نئی مصنوعات بنانے کاارادہ کرتےہیں یاپہلے سے دستیاب عوامل کوزیادہ مؤثر  اورجوابی انداز میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔“

                                                                                                                                 شپیرو نےمتعدد تکنیکی مشاہدات اور تجرباتی مثالوں کے حوالوں سے بیان کیا ہے کہ کس طرح سیل اپنی ”فیکٹریوں“ میں ماحولیاتی چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے مسلسل نئے ہتھیار تیارکرتےرہتے ہیں اورپھر وقت کے ساتھ ان میں تبدیلیاں اوربہتری بھی لاتے رہتےہیں۔شپیرو کا کہنا ہے کہ:

“When an electronic or microchip engineer sets out to design a new circuit or chip architecture, she bases it on existing components that can be assembled by available technology. This is analogues to utilizing existing evolutionary inventions as the basis for a novel genomic architecture: coding sequence (exons), regulatory signals, chromatin formatting signals, and higher-order constructs such as centromeres, telomeres, and Hox complexes. In part II and III, you saw how cells possess the molecular apparatus to amplify the corresponding sequence components as either DNA or RNA and then place them in new locations and new arrangements in the genome.”(p.130)
”جب کوئی الیکٹرانک یا مائیکروچپ انجنیئر نیاسرکٹ یا چِپ بنانے کا ارادہ کرتاہے تووہ پہلے سے موجود پرزوں کو دستیاب ٹیکنالوجی کے ذریعے نئے انداز میں جوڑنے کی کوشش کرتاہے۔یہ اس سے مشابہ ہےکہ سیل بھی پہلے سےپائی جانے والی ارتقائی ایجادات کی بنیاد پر نئے جینیاتی آلات تیارکرتےہیں ۔۔۔کتاب کے حصہ دوم اور سوم میں دکھایا جاچکاہے کہ کس طرح سیلز ایسے مالیکیولرسامان سے لیس ہوتےہیں  جس کے ذریعے وہ ڈی این اے یا آراین اے کی ترتیب کی تاثیربڑھاکرپھرانھیں جینوم میں کسی نئی جگہ پر رکھ دیتے ہیں  اورپورے جینوم میں نئی تنظیم پیداکرتے ہیں۔“

                                                                                                                         نیچرل جینیٹک انجنیئرنگ کے حوالے سے شپیرو مزیدانکشاف کرتاہےکہ سیلزمیں نئی ایجادات کیلئے باقاعدہ ریسرچ کے مراکز بھی ہوتےہیں:

“In human engineering, innovation is greatly facilitated by the presence of a vigorous research and development (R&D) sector, exemplified by institutions …The freedom to experiment without concern for immediate utility has proven to be extremely valuable in generating novelties. Is there any biological analogy for such an unfettered R&D process? A number of molecular biologists have pointed out that viruses are biological entities that reproduce in an opportunistic manner that is not subject to the same functional constraints as cellular proliferation. They have proposed that the viroshere represents the realm where experimentation with genomic processes is least restricted and that viruses serve as sources of novelties that can later be adapted by cells.”(p.132-133)
”انسانی انجنیئرنگ میں نئی ٹیکنالوجی کاانحصار نئی تحقیق و ترقی پر ہوتاہے جس کیلئے ریسرچ اورڈویلمپمنٹ کے ادارے ہوتےہیں۔۔کچھ نیا ایجاد کرنے میں کسی معلوم افادیت اور فوری ضرورت کے بغیر بھی نئے تجربات کرنے کی آزادی بہت اہم ہوتی ہے۔ کیا حیاتیاتی سیل میں بھی ایسی ریسرچ اورڈویلمپمنٹ کا عمل ہوتاہے؟ کئی مالیکیولر بیالوجسٹس نے نشاندہی کی ہے کہ وائروسفیر دراصل وہ جگہ ہوتی ہے جہاں جینیاتی عوامل کے ساتھ نئے تجربات ہوسکتے ہیں اوروائرس ایسے نئے ہتھیاروں کی تیاری کاذریعہ ہوتے ہیں جوبعد میں سیلز کےکام آتے ہیں۔“

                                                                                            یہی وجہ ہے کہ جب بیسویں صدی میں انیٹی بایوٹک دوائیں متعارف کرائی گئیں تو بیکٹیریا نے جلد ہی ان کے خلاف مزاحمت پیداکرلی ، کیونکہ ان دواؤں کا مقابلہ کرنے کیلئے درکار ہتھیار پہلے سے ہی ان کے سیلز میں تیار موجود تھے۔

6) ڈارونزم میں قدرتی انتخاب(Natural Selection ) کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، لیکن شپیرو کے نزدیک قدرتی انتخاب کوئی تخلیقی(Creative) قوت نہیں ، بلکہ ایک مصفی(Purifying) عامل ہے۔یعنی صرف قدرتی انتخاب کے ذریعے نئی انواع وجود میں نہیں آسکتیں، خواہ ایک نوع کے افراد آپس میں جسمانی طورپرکتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوجائیں۔



                                                                                                                                                              جیمز شپیرو کاقدرتی جینیٹک انجنیئرنگ کا نظریہ ارتقاء اس وقت سائنسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ نیوڈارونزم کے حامی اسے قبول کرنے میں ہچکچارہے ہیں کیونکہ  ملحدبائیولوجسٹس کواپنے الحادی مقدمے کیلئے ارتقاء کا روایتی نظریہ ہی مفید دکھائی دیتاہے جس میں حادثاتی جینیاتی تغیرات پر قدرتی انتخاب (نیچرل سیلیکشن )جیسے اندھے بہرے عمل کی کارفرمائی بتائی جاتی ہے اوریوں کسی مافوق الفطری قوت کی دخل اندازی کاامکان نہیں رہتا۔جبکہ شپیرو کے نظریے میں وہ ”انجنیئرنگ “ کا لفظ دیکھ کر ہی بدک جاتے ہیں  کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سیل کے اندرکسی انجنیئرنگ  کومان لیاتو پھر ارتقاء کے عمل میں کہیں سے ”انجنیئر“ بھی داخل ہوجائے گا! !

                                                                                                                       تاہم مسئلہ یہ ہے کہ جیمز شپیروخود ایک مستند بائیولوجسٹ ہے جوکئی سائنسی اعزازات وصول کرچکاہے اور امریکن اکیڈیمی فار مائیکروبیالوجی کاممبر ہےاور اس نے یہ کتاب لکھنے سے پہلے اپنے مشاہدات اور نظریات مستند سائنسی جرائد(Peer-reviewed Journals) میں شائع کرائے ہیں ۔ان سائنسی رسالوں میں چھپنے والا کوئی بھی مضمون پہلے کئی ماہرین کی تنقیدی نظروں سے گزرتاہے اوراسی وقت شائع ہوتا ہےجب اس میں کوئی سائنسی صداقت ہوتی ہے۔ اس لیے شیپروکے نظریے کو غیرمعیاری سائنس  (Pseudoscience)کہہ کر یوںمسترد نہیں کیا جاسکتا جیسے انٹیلیجنٹ ڈیزائن کو کیا جاتاہے۔

                                                                                                                             ہوسکتاہے کہ چھان بین کے بعد جیمز شپیرو کانظریہ پوری طرح درست ثابت نہ ہو یا دوسرے بائیولوجسٹس اسے من وعن قبول نہ کریں، تاہم جودلائل اور شواہد اس نے اپنی کتاب میں پیش کیے ہیں، ان سے یہ بہرحال واضح ہوتاہےکہ ڈارونزم کا روایتی نظریۂ ارتقاء اب جدید تحقیقات کا ساتھ نہیں دے پارہا اور اس میں ایسے جھول اور نقائص موجود ہیں جس کی وجہ سے اسے ایک مکمل اورحتمی نظریہ نہیں کہا جاسکتا۔اس مطالبے میں جیمز شپیرو تنہا  نہیں کہ نئے مشاہدات کی وضاحت کیلئے نئی صدی میں ایک نئے نظریہ ارتقاء کی ضرورت ہے۔

**************************





No comments:

Post a Comment